غزل
قتل گہہ میں جب کسی سفاک کا خنجر اٹھا
واسطے تعظیم کے تن سے ہمارا سر اٹھا
جب کبھی پہلو سے مجھ محزوں کے وہ دلبر اٹھا
درد سینہ میں جگر میں دل میں رہ رہ کر اٹھا
گرم جوشی سے رقیبوں کی ہوا ایسا ملال
تیری محفل سے مثال شمع میں رو کر اٹھا
خاک بھی جمنے نہیں دیتی ہے عاشق کے قدم
وہ پری کہتی ہے سایہ سے مرے بستر اٹھا
چاہتا ہے تو اگر تاج سرافرازیٔ دہر
چار دن کے واسطے منعم نہ بار زر اٹھا
عبدالمجید خواجہ شیدا