غزل
قدم زمیں پہ نہ تھے راہ ہم بدلتے کیا
ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر سنبھلتے کیا
پھر اس کے ہاتھوں ہمیں اپنا قتل بھی تھا قبول
کہ آ چکے تھے قریب اتنے بچ نکلتے کیا
یہی سمجھ کے وہاں سے میں ہو لیا رخصت
وہ چلتے ساتھ مگر دور تک تو چلتے کیا
تمام شہر تھا اک موم کا عجائب گھر
چڑھا جو دن تو یہ منظر نہ پھر پگھلتے کیا
وہ آسماں تھے کہ آنکھیں سمیٹتیں کیسے
وہ خواب تھے کہ مری زندگی میں ڈھلتے کیا
نباہنے کی اسے بھی تھی آرزو تو بہت
ہوا ہی تیز تھی اتنی چراغ جلتے کیا
اٹھے اور اٹھ کے اسے جا سنایا دکھ اپنا
کہ ساری رات پڑے کروٹیں بدلتے کیا
نہ آبروئے تعلق ہی جب رہی بانیؔ
بغیر بات کئے ہم وہاں سے ٹلتے کیا
راجیندر من چندا بانی