loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 02:50

قدم قدم پہ ٹھہرتے تھے ڈر ہی ایسا تھا

غزل

قدم قدم پہ ٹھہرتے تھے ڈر ہی ایسا تھا
نہ طے ہوا کبھی ہم سے سفر ہی ایسا تھا

مہیب سائے سے آتے رہے نظر ہر سو
یہ ذکر دشت نہیں اپنا گھر ہی ایسا تھا

نہ راس آئے ہیں عیش و نشاط کے لمحے
نظام دہر کا ہم پر اثر ہی ایسا تھا

کوئی بھی عیب پھٹکنے نہ پایا پاس اپنے
ہمارے پاس طلسم ہنر ہی ایسا تھا

ہمیں یہ شوق کہ طوفاں کی موج سے کھیلیں
مگر کنارے پہ لایا بھنور ہی ایسا تھا

یہیں سے آتی تھیں ہر شب عجیب آوازیں
نگر سے دور پرانا کھنڈر ہی ایسا تھا

اندھیری وادیاں بھی ہم کو جگمگاتی لگیں
ہمارے پاس چراغ نظر ہی ایسا تھا

ہر ایک شخص یہاں تھا مکھوٹا پہنے ہوئے
تمام نگروں میں اپنا نگر ہی ایسا تھا

بہار اور خزاں ایک سے ہیں اس کے لئے
ہمارے باغ کا تنہا شجر ہی ایسا تھا

نہ خم ہوا کسی جابر کے روبرو گوہرؔ
سدا بلند رہا اپنا سر ہی ایسا تھا

کلدیپ گوہر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم