قضا کا تیر تھا کوئی کمان سے نکل گیا
وہ ایک حرف جو مری زبان سے نکل گیا
بہت زیادہ جھکنا پڑ رہا تھا اس کے سائے میں
سو ایک دن میں اس کے سائبان سے نکل گیا
ابھی تو تیرے اور ترے عدو کے درمیان ہوں
اگر کبھی میں تھک کے درمیان سے نکل گیا
مرے عدو کے خواب چکنا چور ہو کے رہ گئے
میں جست بھر کے دشت امتحان سے نکل گیا
ترے کمال فن کا صرف میں ہی قدردان ہوں
اگر میں تیری اس بھری دکان سے نکل گیا
اظہر ادیب