غزل
قطرے میں دریا ذرے میں صحرا دکھائی دے
وا دل کی آنکھ ہو تو تماشا دکھائی دے
تیری نظیر حسن و ادا میں کوئی نہیں
مجھ کو بتا دے کوئی جو تجھ سا دکھائی دے
اپنی برائیوں پہ اگر جائے گی نظر
دنیا میں ہر کوئی ہمیں اچھا دکھائی دے
چھانی ہے اس لئے رہ دیر و حرم کی خاک
شاید تمہارا نقش کف پا دکھائی دے
اپنی حیات عشق پہ ڈالیں اگر نظر
ناخوش گواریوں کا پلندہ دکھائی دے
گل کی ادا چمن میں جمالیؔ ہے دل پذیر
سینہ ہو غم سے چاک تو ہنستا دکھائی دے
بدر جمالی