loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 23:51

قیاس اور صحرا

نظم

اب کے آنگن میں ترے شام جو اتری ہوگی
اس کے پہلو میں اگر دیکھو دکھائی دے گی
ہولے ہولے سے وہیں پاس سلگتی مری یاد
ایک جھونکے سے ہوا ہوکے بھڑک جائے گی

دور ساحل پہ کہیں بیٹھ کے تو بھی تنہا
ریت پر لکھ کے مرا نام مٹاتی ہوگی
آسماں سے تو اداسی کے چراتے ہوئے رنگ
کوئی تصویر کوئی عکس بناتی ہوگی

تیرے بکھرے ہوئے بالوں سے الجھتی یہ ہوا
تیرے رخسار کے پھیلے ہوئے کاجل کی طرح
ایک انگلی میں گھماتے ہوئے کالی زلفیں
تیرے احساس کو کچھ اور بڑھاتی ہوگی

پھر کسی اوٹ سے بے ربط ابھرتا ہوا چاند
اپنے ہالے میں لیے ایک کہانی سچی
رت جگوں کا تجھے اک عادی بناتا ہوگا
اور پھر نیند نہیں آنکھوں میں آئی ہوگی

میرے صحرا میں بھی اک شام ہوا کرتی ہے
گرد ہی گرد ہے اور خاک اڑا کرتی ہے
گرد میں لپٹا ہوا شام کا سورج کچھ کچھ
دن کی برسائی ہوئی آگ پہ شرمندہ ہے
اس لیے بھی یہ فضا دشت کی رنجیدہ ہے
دن کی بھٹکی ہوئی ہر ایک ابابیل تلک
اپنے مسکن کی طرف لوٹ کے جاتی ہے مگر
میں وہیں ریت پہ اک عمر سے بیٹھا ہوا ہوں
اپنے حصے کی تپش سہتا ہوں تنہا تنہا
ریت کے ذروں کو گنتا ہوں ہے وحشت میری
تیری یادوں نے دیا ہے مجھے انداز یہی
کیسی قسمت ہے مری سوچتا رہتا ہوں فقط

رشک ہر چندکے اب لوگ کیے جاتے ہیں
دور اور دور سہی کوئی ہے جس کو میں نے
کوئی تو ہے جسے چاہا ہے بہت ہی میں نے
میرے صحرا میں کہاں شام ہوا کرتی ہے
دن ڈھلا کرتا ہے کب رات ہوا کرتی ہے
ریت کے ذرے بھی ہوتے ہی نہیں ختم یہاں
میں بھی گنتا ہوں فقط گنتا ہوں گنتا ہوں فقط

ایسا لگتا ہے کوئی ان کو ملا دیتا ہے
جتنا گنتا ہوں کوئی گنتی بھلا دیتا ہے
کیسی وحشت ہے یہ درپیش ہے الجھن مجھ کو
ایک مدت سے نہیں نیند نے چومیں آنکھیں
ہے گلا خشک تو یہ ہونٹ بھی سوکھے ہوئے ہیں
تشنگی ایسی جو ہر روز بڑھے جاتی ہے
اور یہ آس ہے جو روز بجھے جاتی ہے

میرے صحرا میں کہاں شام ہوا کرتی ہے
خاک بس خاک ہی صحرا میں اڑا کرتی ہے

آصف سہل مظفر

Asif Sehal Muzaffar

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم