قیدی ہو جیسے قید میں زنجیر کے بغیر
زندہ ہوں اس طرح تری تصویر کے بغیر
سادہ دلی تو دیکھئے سانپوں کو مارنے
تاریکیوں میں آگئے تنویر کے بغیر
میرے عدو کو اے خدا اس کی خبر نہ ہو
گھر سے نکل پڑا ہوں میں شمشیر کے بغیر
وہ کہہ رہا ھے ساتھ نبھائے گا عمر بھر
سچ کیسے مان لوں کسی تحریر کے بغیر
تو جس کتابِ دین کو پڑھتا ھے رات دن
اس کو سمجھ نہ پائے گا تفسیر کے بغیر
گھر کا تصورات میں نقشہ بنا لیا
اس میں ہی رہ رہا ہوں میں تعمیر کے بغیر
بس تیرے ساتھ گھر سے نکلنے کی دیر تھی
مشہور ہو گیا ہوں میں تشہیر کے بغیر
سہیل اقبال