تحریر آشکار احمد صدیقی
قیصر صدیقی
شخصیت اور شاعری__
افتخار احمد، قیصر صدیقی اردو کے عظیم شاعر تھے-ان کے والد کا نام مولوی عبدالغنی تھا۔ قیصر صدیقی 19 مارچ, 1937 بروز جمعہ کو سمستی پور شہر سے تین کیلومیٹر پورب بوڑی گندھک کے دکھنی کنارے پر آباد ایک چھوٹے سے گاؤں گوھر نوادہ میں پیدا ہوئے ۔ 11 نومبر 1964 بروز بدھ کو ان کی شادی اپنے ماموں عبدالحفیظ صاحب کی دوسری صاحبزادی احمدی خاتون شبنم سے ہوئی۔ قیصر صدیقی کی مختصر علالت کے بعد سمستی پور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں 4 ستمبر 2018 بروز منگل کو ان کی وفات ہوگئی ۔ آبائی گاؤں گوہر نوادہ ہی میں مدفون حضرت ازغیب پیر رحمتہ اللہ کے مزار کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے "انا للہ وانا الیہ راجعون”

خیر البشر کے صدقے میں قیصر کو بخش دے
یہ پیکرِ خطا ہے ، میرے پاک بے نیاز
قیصر صدیقی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا لیکن باقاعدہ شاعری کا سلسلہ اجمیر شریف میں بارہ تیرہ سال کی عمر سے شروع ہوا۔ اس سلسلے میں مستند ثبوت ہیں کہ خود قیصر صدیقی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔۔”زندگی نے اسی طرح آوارہ گردی کرتے ہوئے قریب تیرہ چودہ سال مکمل کر لۓ میں اس زمانے میں اجمیر شریف میں تھا ۔۔۔۔ سید ایوب جمالی صاحب مرحوم کے حجرے کے پہلو میں ایک پھول کی دکان تھی اسی پر شعراء حضرات کی بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں جناب انیس نیازی مرحوم ، ساغر اجمیری مرحوم، اطہر اجمیری مرحوم رونق اجمیری مرحوم اور بہت سے شعرا جن کا نام اب یاد نہیں رہا وہاں جمع ہوتے اور شعر و سخن کے تزکرے ہوا کرتے تھے ، میرے ذوقِ شعر گوئی کو وہیں سے تحریک ملی اور میں نے جب کچھ منقبت کے اشعار کہکے ان بزرگوں کے سامنے رکھے تو سب نے میرا بہت مزاق اڑایا اور ساتھ ہی مجھے میرے بہاری ہونے کا طعنہ بھی دیا ۔ میں بہت دل برداشتہ ہوا اور سرکار غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ میں رو رو کر دعا کی یا اللہ مجھے شاعری آجائے اور بس وہی ہوا ۔ رات کو جب سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں شعر کہہ رہا ہوں ، اور پھر دوسرے دن سے میں شعر کہنے لگا ،شعر جیسا بھی کہتا مگر وزن و بحور کی خامی نہیں کہ برابر ہوتی تھی”۔
اس طرح قیصر صدیقی کی اولین فنی تخلیق نومبر 1950 میں امام عالی مقام امام حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کی شان محترم میں زبانِ قلم سے ادا ہونے والے تیرہ اشعار کی ایک والہانہ منقبت ہے جو درگاہ کے سماع خانہ میں 5 محرم الحرام کو منعقد ہونے والی طرحی بزمِ مسالمہ کے لیۓ تخلیق کی گئی ، حضرتِ کامل اجمیری مرحوم کے مصرع طرح
"بناۓ خانۂ کعبہ حسین ابنِ علی”
پر قیصر صدیقی نے یوں طرح لگائی __
بناۓ خانۂ کعبہ حسین ابنِ علی
چراغِ خانۂ زہرا حسین ابنِ علی
بنا ہےضامنِ بخشش گناہ گاروں کا
تمہارا آخری سجدہ حسین ابنِ علی
یہ اور ہوگا فزوں تر قیام محشر تک
تمہارے قتل کا چرچا حسین ابنِ علی
نگاہِ لطف و عنایت ہو اپنےقیصر پر
یہ ہے غلام تمہارا حسین ابنِ علی
اس مکمل منقبت کو قیصر صدیقی نے بزمِ مسالمہ میں سنا کر داد و تحسین حاصل کیا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں قیصر صدیقی یوں لکھتے ہیں ” میں نے اجمیر ہی میں پہلا مشاعرہ پڑھا ، مجھے یاد آتا ہے ہے کہ کوئی بڑا مشاعرہ اجمیر کے کسی کالج میں ہونے والا تھا ، جو بلبھ بھائی پٹیل کی موت کی وجہ سے ملتوی ہو گیا تھا ، اس مشاعرے کے لیے پاکستان سے بہزاد لکھنوی بھی تشریف لائے تھے ۔ جنہیں درگاہ کے مشاعرے کے لئے عرشی اجمیری مرحوم جو بزرگ شاعر تھے نے روک لیا تھا ، وہ مشاعرہ جسمیں میں نے اپنا پہلا کلام سنایا تھا اس کی صدارت جناب بہزاد لکھنوی ہی نے فرمائ تھی ، وہ مشاعرہ طرحی تھا اور طرح تھی ” میر حجاز اپنا سالارِ کارواں ہے "
لہذا قیصر صدیقی صرف ساڑھے 13 سال کی عمر میں 21 دسمبر 1950 کو پاکستان سے آئے ہوئے مشہور شاعرعلامہ بہزاد لکھنوی کی صدارت میں منعقد طرحی مشاعرہ میں ایک نوخیز شاعر کی حیثیت سے شرکت کر اپنی پہلی مکمل غزل سنائی، غزل کے چند اشعار ہیں