loader image

MOJ E SUKHAN

قیصر صدیقی شخصیت اور شاعری

مجبورِ لب کشائی بیمارِ نیم جاں ہے
آنکھیں بتا رہی ہیں جو قلب میں نہاں ہے

گردش میں یہ زمیں ہے چکر میں آسماں ہے
میں کیا رواں دواں ہوں عالم رواں دواں ہے

ہے نالہ کش عنادل ، مرجھا گئیں ہیں کلیاں
ایسی بہار سے تو بہتر کہیں خزاں ہے

کس کو سنائیں قیصر اہلِ چمن فسانہ
خود باغباں کے ہاتھوں برباد گلستاں ہے

حضرتِ بہزاد اس ننھے سے شاعر کا وہ لب و لہجہ دیکھ کر چونکے اور خوب خوب حوصلہ افزائی کی دوسرے استادانِ فن نے بھی دعاؤں سے خوب نوازا ۔ قیصر صدیقی تقریباً چودہ ماہ اس سفر میں اجمیر میں رہے اور بزرگ شاعر مولانا مانی اجمیری سے اصلاح لیتے رہے ۔
قیصر صدیقی اجمیر شریف سے لکھے اپنے ایک خط مورخہ 6 جنوری 1951ء کو اپنے نانا عبدالحئی مختار صاحب کو یوں تحریر کرتے ہیں ۔
” آپکا ایک خط ملا پڑھ کر دل کو ازحد خوشی ہوئی ، آپ نے جو لکھا ہے کہ یہ واقعہ رات کو ہوا یا دن کو خواب میں ہوا یا جاگتے میں یہ مجھے کوئی خبر نہیں کہ خواب میں ہوا یا جگے میں جس وقت مجھے ہوش ہوا اس وقت کچھ نہیں یاد تھا لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ افتخار تم تو کسی آدمی سے باتیں کر رہے تھے وہ آدمی کدھر گیا اور کہاں گیا آپ جو شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شاعری مت کرو یہاں کا تو بچہ بچہ شاعر ہے اور اگر میں نے کیا تو کیا کیا ، شاعری کی بات یہ ہے کہ ہر وقت بیٹھا رہتا ہوں نہ کہیں جانا نہ آنا دماغ میں جو کچھ آجاتا ہے وہ لکھ لیتا ہوں اور اسکی اصلاح ایک مولانا ہیں مانی صاحب انہیں سے کروا لیتا ہوں کچھ اشعار ہوۓ ہیں وہ یہ ہیں :-
وہ ہزار سامنے ہوں کریں لاکھ رونمائی
انہیں دیکھنے نہ دے گی یہ نظر کی پارسائی

تیرے میکدہ کے صدقے میں ہی تشنہ رہ گیا ہوں
میرے کج کلاہ ساقی ہے یہ خوب کج روائ

میں جہاں سے منہ پھرا کر تیرے پاس آ پڑا ہوں
کوئی اور کیا بھڑے گا میرا کاسۂ گدائی

اس میں اور لکھنے کو باقی ہے جب پورا ہو جائے گا تو پھر لکھوں گا ،،

قیصر صدیقی کے مندرجہ ذیل دو اشعار اسی واقعہ کی یادگار ہیں ۔

ایک شمع آگہی مجھے اجمیر میں ملی
ایماں کی روشنی مجھے اجمیر میں ملی

قیصر نگاہ خواجہ اجمیر کے طفیل
دنیاۓ شاعری مجھے اجمیر میں ملی

قیصر صدیقی کہنہ مشق ، زود گو اور قادر الکلام شاعر تھے ، ان کی شاعری سات دہائیوں پر محیط ہے اپنے 68 سالہ شاعری کے سفر میں مختلف اصنافِ شاعری ، بلکہ بعض نہایت مشکل اصنافِ شاعری میں بھی کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی تاہم وہ بنیادی طور پر غزل کے ہی شاعر مانے جاتے ہیں اور اب تک ان کے شعری کارنامے جو بصورت کتاب منظر عام پر آئے ہیں وہ بھی زیادہ ترغزل ہی سے متعلق ہیں ۔ آج سے تقریبا 37 سال قبل اوّلین مجموعہ غزل "صحیفہ ” 1983 میں شائع ہوا تھا اس کے بعد کافی تاخیر سے دوسرا ضخیم مجموعہ غزل "ڈوبتے سورج کا منظر ” 2010ء میں شائع ہوا ۔ تیسرا مجموعہ "سجدہ گاہِ فلک” چوتھا مجموعہ حمد و نعت "روشنی کی بات” پانچواں مجموعہ ” غزل چہرہ”( ہندی ) چھٹھا مجموعہ "زنبیلِ سحر تاب” ساتواں مجموعہ ” اجنبی خواب کا چہرہ ” آٹھواں مجموعہ "بے چراغ آنکھیں ” نواں مشاہیر اردو ادب کے مضامین کا مجموعہ ” قیصر صدیقی فنی جہات اور فکری امکانات ” شائع ہوا ۔
اجمیر شریف سے آنے کے بعد قیصر صدیقی 1952 کے اوائل میں بمبئی چلے گئے اور دادر ویسٹ میں رنجیت اسٹوڈیو کے پاس مقیم ہوئے ، پاس کے پیسے ختم ہوئے تو دو دنوں تک بھوکے رہے ،فٹ پاتھ پر سوئے تو حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑی "قیصر صدیقی نے اپنے ایک نیجی گفتگو میں بتایا کہ اگر میں بمبئی میں کبھی فٹ پاتھ پر سویا تو اللہ کے کرم سے وہ دن بھی آیا جب میں نے ہوٹل تاج میں بھی قیام کیا مگر کچھ دنوں بعد ہی کام مل گیا فلم "جگت گرو شنکر اچاریہ ” میں فلم کے ہیرو ابھیبھٹاچاریہ کے ساتھ تین روپے روز پر پانچ لڑکوں کے ساتھ گروپ میں جونیئر ایکسٹرا کا رول ادا کیا ، تقریبا ڈیڑھ مہینے تک شوٹنگ چلتی رہی اس کے بعد چار اور فلموں ” جھنک جھنک پائل باجے ” ” اونچی حویلی” ” کروڑپتی ” اور ” عورت ” میں senior extra کا رول ادا کیا اور قریب سات آٹھ ماہ بمبئی میں رہ کر گھر لوٹ آئے ۔” مندرجہ ذیل دو اشعار اسی واقعہ کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں