جب میں کلکتے میں تھا تو کچھ مخلص دوستوں کا ساتھ نصیب ہوا جس نے میرے فن کو جلا بخشی، ان دوستوں میں کچھ بزرگ دوست بھی ملے، جیسے احسان دربھنگوی،ناظرالحسینی ،مضطر حیدری ، شہاب لکھنوی ،عارف القادری ، اور کچھ بے تکلف دوست جن میں ثمر آروی، شمیم آنولوی ،جزب آنولوی اور خاص طور سے وکیل اختر مرحوم جن سے میرا یارانا بہت گہرا تھا ،ان لوگوں کے توسّط سے حضرت پرویز شاہدی اور حضرتِ جمیل مظہری کے نیاز حاصل ہوۓ ،سچ پوچھۓ تو میری ذہنی تربیت ان ہی حضرات کی دوستی کے ساۓ میں ہوئی ، تو اس طرح میں نے اپنے لئے دو ٹریک بنانے ، ایک میرا معاشی ٹریک تھا جس پہ میں قوالوں کے لئے لکھتا تھا جو عوامی چیزیں ہوتی تھیں اور ایک مشاعرے کے لئے سنجیدہ ادبی چیزیں، میں مشاعرے میں جاتا تھا اور خوب شوق سے جاتا تھا ۔ "
قیصر صدیقی کے یہ دو اشعار انہیں واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔
اوجھل نہ ہوا اہلِ بصیرت کی نظر سے
قیصر کبھی ایوانِ سخن سے نہیں نکلا
__
میرے فن میں عکسِ پرویز و جمیل
جرم کے لہجے کی رعنائی ہوں میں
ایک سوال کے جواب میں قیصر صدیقی فرماتے ہیں ” علامہ جمیل مظہری مرحوم ہم نوجوان شاعروں کے لیے علامت تھے ان کی زندگی کے شب و روز پر ہم لوگ نگاہ رکھتے تھے ان کی باتیں ان کے فقرے یہ سب ہم لوگوں کو عزیز تھے ، مجھے خاص طور سے علامہ کی شخصیت کا قلندرانہ پہلو بہت پسند تھا ، ان کی شاعری کے تعلق سے اگر کہو تو علامہ کی شاعری کا جو وہ ایک نرم روّیہ ہے ایک دھیمی دھیمی آنچ جو انکے ہاں ہے وہ بہت خوب ہے اور میں نے اپنے ہاں بھی شعوری یا غیر شعوری طور پہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میری آواز میرے قاری کے ذوقِ سماعت پر گراں نہ گزرے
جو بھی کہنا ہے وہ نرمی سے کہوں گا قیصر
کیوں کہ سیکھی ہی نہیں شعلہ بیانی میں نے
"قیصر صدیقی کے کلکتہ میں قیام کا ذکر” ۔۔ قیصر صدیقی کے رازداں اور دوست مشہور شاعر حامی گورکھپوری اکثرخاص کر اس مشاعرہ کا ذکر خوب مزے لے لے کر کرتے جو "ینگ بوائیز ایسوسیشن” خضر پور کے زیرِ اہتمام گاندھی جینتی کے موقع سے حضرت پرویز شاہدی کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس کی نظامت پروفیسر اعزاز افضل نے کی تھی ، ناظمِ مشاعرہ نے قیصر صدیقی کو مائک پر تشریف لانے کو آواز دی ، قیصر بغیر کسی تمہید کے ترنّم سے غزل سنانی شروع کر دی _
جب بھی قیصر رسن ودار کے چرچےہونگے
میرے جزبے میرے ایثار کے چرچےہونگے
جب جفا کوشئ اغیار کے چرچےہونگے
میرےہمدم میرے غمخوارکے چرچےہونگے
چاندنی رات کےساۓ میں کہی ہے یہ غزل
مہہ وشوں میں مرےاشعارکے چرچےہونگے
رنگ لاۓ گا شہیدانِ محبت کا __ لہو
آپ کے دامنِ گلنار کے چرچے ہونگے
غرق ہونے کو تو جائیگی کشتی ، لیکن
میری ٹوٹی ہوئی پتوار کے چرچے ہونگے
وہ بھی دن آۓگا جب بزمِ سخن میں قیصر
تیری شیرنیئ گفتار کے چرچے ہونگے