loader image

MOJ E SUKHAN

قیصر صدیقی شخصیت اور شاعری

یوں تو اس غزل کے ہر شعر پر قیصر کو سامعین کے ساتھ ساتھ شعراء حضرات اور خاص کر ناظمِ مشاعرہ داد و تحسین سے نوازتے رہے ، لیکن قیصر نے جب یہ شعر ۔۔۔
غرق ہونے کو تو ہو جائے گی کشتی ، لیکن
میری ٹوٹی ہوئی پتوار کے چرچے ہونگے

پڑھا تو صدرِ مشاعرہ حضرت پرویز شاہدی کی جیسے جنونی کیفیت ہو گئی ہو ، اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں زانو پر ہاتھ مار مار کر واہ واہ کرتے اور کہتے جمیل سے آگے نکال کر لے گیا ،جمیل سے آگے نکال کر لے گیا ہے پھر سے پڑھو ، واہ واہ کیا شعر نکالا ہے ،قیصر نے قریب پانچ بار اس شعر کو پڑھا ہوگا ، واقعی یہ شعر حاصلِ غزل بھی ہے اور اچھوتا بھی ۔ شاید اس وقت پرویز شاہدی کی نگاہ میں علامہ جمیل مظہری کی مندرجہ ذیل مشہور و معروف رباعی رہی ہو __

کشتی کو اچھالا کۓ سرکش دھارے
ساحل پہ نگاہ کی نہ تو ہمت ہارے

ٹوٹی ہوئی پتوار نے میری اکثر
طوفانوں کے چہرے پہ طماچے مارے

قیصر صدیقی کی یہ غزل کچھ دنوں بعد ماہنامہ نداۓ حرّیت میں شائع ہوئی تھی ۔۔۔۔

قیصر صدیقی نے چھ ہندی فلموں "خطا پیار کی”” تن بدن””تیرے جیسا یار کہاں””تحقیقات””درگا کی سوگندھ "اور مافیا ڈان کے لئے بھی نغمہ نگاری کی ہیں جس کے گیت آشا بھوسلے ، انورادھا پوڈوال ،جانی بابو للکار، محمد عزیز ،کمار شانو کویتا کرشن مورتی، انوپما دیش پانڈے،ادت نارائن ،اور الکا یاگنک کی آوازوں میں ریکارڈ کۓ گئے، لیکن افسوس کہ اس میں سے کوئی بھی فلم آج تک ریلیز نہیں ہو پائی ۔
قیصر صدیقی کو قوالی لکھنے میں محارت حاصل رہی ہے، انکی قوالیوں اور غزل کے سینکڑوں ریکارڈ، کیسٹ اور سی ڈی مختلف ریکارڈنگ کمپنیوں نے تیار کیے ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی قوالیوں میں "اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دکھا” زندگی اک کرایے کا گھر ہے” ماں ہے جنت تو باپ دروازہ "مسلمانوں سنبھل جاؤ قیامت آنے والی ہے”اور یہ دنیا ایک سراۓ کوئی آۓ کوئی جاۓ” وغیرہ بیحد مقبول ہیں ۔

اب قیصر صدیقی کی شخصیت اور شاعری کے متعلق چند مشاہیر اردو ادب کے قول پھر اسکے بعد کچھ متفّرق اشعار


بقول پروفیسر سید ضیاء الرحمن :– "قیصر صدیقی ایک زندہ ، بیدار اور فعال شاعر ہیں ۔انکا سینہ شعر و معنی کا بحر بے کراں ہے۔ ان کا ذہن اپنے مخصوص ذاتی احوال اور موجود عمومی سماجی حالات کا سچّا درپن ہے۔ انکی نگاہوں میں بصیرتوں کے چراغ روشن ہیں۔روحِ عصر انکے فن کے کالبُد میں سرگرم و رواں ہے۔ اپنی باتوں کو سلیقے اور ہنرمندی سے کہنا، اس پر مستزا ہے کہ سلیقۂ بیان قیصر صدیقی کا طرّۂ امتیاز ہے ۔ "

ایک تبصرہ چھوڑیں