پروفیسر وہاب اشرفی :– مباحثہ کے 2011 کے شمارے میں لکھتے ہیں _قیصر صدیقی ایک ممتاز شاعر ہیں۔ ان کی ” حمد” ان کی انفرادیت کے کئی پہلو کو پیش کر رہی ہے جسے آپ بھی محسوس کریں گے ۔”
ہے نظر نظر تری روشنی، ہے چمن چمن ترا رنگ و بو
تو ہی دھڑکنوں کا امین ہے، تو ہی زندگی کی ہے آبرو
تری شان جلّ جلالہ
یہ مہ ونجوم ، یہ کہکشاں ، یہ کلی ، یہ غنچہ ، یہ گلستاں
ہیں تری نگاہ سے ضو فشاں، جہاں دیکھۓ وہاں تو ہی تو
تری شان جلّ جلالہ
تو جو چاہے مالکِ دو جہاں، رگِ سنگ سے ہو لہو رواں
تو مکاں سے تا سرِ لامکاں، ترا نور ہی ہے چہار سو
تری شان جلّ جلالہ
یہ غریب قیصرِ بے نوا ، رہے کب تلک یونہی غمزدہ
ہو اسے بھی تھوڑی خوشی عطا، ہے حیات اس کی لہو لہو
تری شان جلّ جلالہ
پروفیسر مرتضیٰ اظہر رضوی —” قیصر صدیقی اس اعتبار سے ایک اچھا جادوگر ہے کہ اسے غزل کی علامتوں کو برتنے کا اندازہ ہے اور اس اندازے میں اس کی انفرادیت پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔ قیصر کے کلام میں چیخ نہیں ہے لیکن دھیمی دھیمی آوازوں کی ایک مسلسل گونج ہے جو تالاب میں پھینکی ہوئی کنکری سے بننے والے دائرے کی طرح پھیلتی ہی چلی جاتی ہے ساحل سے ساحل تک یہ پھیلاؤ نامحسوس طور پر قیصر کے اشعار میں سمایا ہوا ہے۔ قیصر کہیں بھی ہمارے اعصاب کو جھنجھوڑتا نہیں ہے وہ پلکوں سے تلوؤں کو گدگدا کر ہمیں آہستہ آہستہ جگاتا ہے۔ پتہ نہیں ایسا کرنے کے لئے اسے کتنی بردباریوں کی شہتیروں کے نیچے سے گزرنا پڑتا ہے لیکن وہ بغیر کچلاۓ ہوۓ گزر جاتا ہے۔ شاید اس میں اسکی زندگی کے تجربات کا ہاتھ ہے ۔”
پروفیسر معراج الحق برق :– "میں بلا خوف و تردید کہہ سکتا ہوں کہ جناب قیصر صدیقی صاحب ایک نہایت معتبر کہنہ مشق، صاحبِ طراز اور قادرالکلام شاعر ہیں ۔ زود گوئی آپ کی صفاتِ عالیہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے آپ کی شاعری معیاری اور بلند مرتبہ ہے۔ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی اسکولی تعلیم بھی مکمل نہ ہو سکی ہو اتنا عمدہ اور اعلیٰ درجہ کا شعر کہنے پر کس طرح قادر ہو سکا۔ یقینً یہ بات قیصر صدیقی کے وہبی شاعر ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔”
پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز :—- "قیصر صدیقی کا غزل کے ساتھ وہی تخلیقی رویہ دکھائی دیتا ہے، جو پھول کے ساتھ تتلی کا ہوتا ہے۔ قیصر صدیقی کا یہ شعر خود انکے تخلیقی میلان پر صادق آتا ہے__
گلوں کے ساتھ رہتے رہتے تتلی
بڑی رنگین فطرت ہو گئی ہے
ذوقِ جمال اور حسن خیال سے لبریز قیصر صدیقی کا پیمانۂ غزل بادۂ حیات سے لبریز چھلکتے ہوۓ جام کی مانند ہے جسے دیکھ کر رُخِ حیات پر زندگی کی امق تیز ہو جاتی ہے۔ احساسات کے تار گنگنانے لگتے ہیں ۔ جزبات کا عالم رنگین، دلکش اور پر کیف ہو جاتا ہے ۔ قلب میں حرکت و حرارت اور نظر میں بصیرت و بصارت کے بے شمار چراغ جل اٹھتے ہیں ۔ ڈوبتے سورج کا شفق رنگ منظر فیصلِ فکر پر حیاتِ نو اور صبحِ رنگیں کے آثار چھوڑ جاتے ہیں۔ "
ڈاکٹر ولی احمد ولی :— مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ قیصر صدیقی غزل کے ایک انوکھے اور البیلے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں انکی شخصیت کی طرح ہی شفّاف، شگفتہ و متین اور تہدار ہیں __ قیصر صدیقی زود گو سیار گو شاعر ہیں، تاہم ان کی زود گوئی اور سیارگوئ سے ان کی شاعری کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا ہے۔ ان کی غزلوں میں تجربات و مشاہدات کی رنگا رنگی اور بوقلمونی کے ساتھ ساتھ موضوعات و مضامین کا تنوع بھی ہے۔ وہ تمام باتیں اور ہر نوعیت کے مضامین کو انتہائی سادگی، شائستگی اور معصومیت کے ساتھ پیش کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں ۔ ان کی غزلوں میں فن کی شائستگی اور اظہار کی شوخی کے ساتھ ساتھ "جوہر اندیشہ” کی گرمی بھی موجزن ہے ——— اپنے مخصوص اندازِ بیاں، جداگانہ لب و لہجہ اور منفرد رنگ و آہنگ کی وجہ کر وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز بھی ہیں اور انفرادی شان کے حامل بھی ہیں -"