ابوالفرح تنویر احمد:—– ” قیصر صدیقی کی شاعری بادِ نسیم کی طرح سبک رو ہے جب پھولوں کو چومتی ہے تو فضا میں بھینی بھینی خوشبو بکھیر دیتی ہے جب دریچوں میں داخل ہوتی ہے تو زندگی کو شادمانی کی لزّت سے ہم کنار کر دیتی ہے۔ قیصر اپنے احساس کی ترسیل میں ہر جگہ کامیاب نظر آتے ہیں ——- سبک روی مدھم مدھم لمحہ تخلیقی عمل و فکری پرواز ان کو اپنے ہم عصروں سے ممیّز کرتی ہے اور یہی انکی شاعری کا وصف ہے ۔”
ڈاکٹر رغبت شمیم ملک، الہ آباد :——- "قیصر صدیقی ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے اُردو ادب کی بے لوث خدمت کی ہے۔ وہ تا حیات صلے کی پروا کئے بغیر گلستانِ اردو کی آبیاری کرتے رہے اور اس میں شعر و سخن کے نو بہ نو گل بوٹے کھلاتے رہے ———- قیصر صدیقی کے مزاج میں قلندری تھی جو تا دمِ مرگ ان کے ساتھ رہی انہوں ادب کی دنیا میں اپنے آپ کو اسٹیبلیسٹ کرنے کے لئے کسی طرح کی ہشیاری نہیں کی اور نہ ہی ادبی سیاست کا حصّہ بنے۔ آخری سانس تک اردو سے محبت کرنے والا فقیر منش شاعر 4 ستمبر 2018 کو اس دنیاۓ فانی سے کوچ کر گیا لیکن شاعری کے شاہراہ پر اس نے جو نقوش قدم ثبت کۓ ہیں انکی تابانی میں مرور زمانہ کے ساتھ تیزی آتی رہے گی –"
بقول صبا نقوی_
کر گیا رحلت جہاں سے شاعرِ عالی دماغ
بجھ گیا اردو ادب کا ایک تابندہ چراغ
متفرق اشعار
اۓ نفی و ثبات کے مالک
موت کے اور حیات کے مالک
میری جانب بھی اک نگاہ کرم
اۓ خدا کائنات کے مالک
_ اۓ خدا رنگ و بو کے رکھوالے! زیست کی آرزو کے رکھوالے ! تیرے ہاتھوں میں آبرو ہے مری اۓ مری آبرو کے رکھوالے
جاکے طیبہ حلاک ہو جاؤں
نور سے دھل کے پاک ہو جاؤں
یا خدا بس یہ آرزو ہے مری
میں مدینے کی خاک ہو جاؤں
رہِ غم سے گزر جاؤں تو بہتر
وفا کا نام کر جاؤں تو بہتر
بہت تنگ آچکا ہوں زندگی سے
مدینے جا کے مر جاؤں تو بہتر
_ دامنِ دل کو نور سے بھر دے دے نگاہوں کو روۓ انور دے اپنے پیارے نبی کے صدقے میں آج قیصر پہ اک نظر کر دے مشکلیں راہ کی کیا روک سکیں گی مجھ کو میرے ہمراہ میری ماں کی دعا چلتی ہے _
غموں کی دھوپ میں رحمت کا بادل یاد آتا ہے
مری ویرانیوں کو ماں کا آنچل یاد آتا ہے
_ زندگی کی راہوں میں چھاؤں کے لئے قیصر ماں جو دل سے دیتی ہے وہ دعا ضروری ہے _
میرے بچپن پہ جسکی چھاؤ کا احسان ہے قیصر
وہ برگد یاد آتا ہے وہ پیپل یاد آتا ہے
_ دیکھنا یہ ہے مریضِ غم کا کیا ہوتا ہے حال آج دریا کی عیادت کو سمندر آۓ گا
ہر نفس زلزلوں کی زد پر میں ہے
ایسے عالم میں جی رہا ہوں میں
_ بھیگا ہوا لہو میں پیراہنِ صدا ہوں سانسوں کی الگنی پر پھیلا دیا گیا ہوں
کسی گمنام پیمبر کا صحیفہ ہوں میں
ایک مدت سے یونہی بند ہوں کھولو مجھ کو
_ اے مری جاگتی آنکھوں کے لرزتے خوابو ! اور کچھ دن کے لئے بوجھ ہوں ڈھولو مجھ کو
میں ہوں اک خارِ بیابانِ تمنّائے حیات
اپنے احساس کی انگلی میں چبھولو مجھ کو
وہ بھی دن آۓ گا جب بزمِ سخن میں قیصر
تری شیرنئ گفتار کے چرچے ہونگے
_ مجھ سا ناکامِ تمنّا نہیں دیکھا ہوگا آپ نے درد کا چہرہ نہیں دیکھا ہوگا _ اسے دیکھو ں مگر دیکھا نہ جائے وہ چہرہ کم ہے آئینہ بہت ہے
میں تم سے صرف اتنا پوچھتا ہوں
بتاؤ چاند کیسے بولتا ہے ؟
چاندنی،شبنم،صبا ،خوشبو ،سحر، نغمہ بدن
ڈال کرآنکھوں میں آنکھیں،بولنے والا بدن
خوشبوؤں کے پیرہن میں مسکراتی روشنی
بجلیوں کا ہم نوا ، پھولوں کا ہم سایہ بدن
_ دیکھ احساسِ خودی کو اس قدر رسوا نہ کر اپنی غیرت کا خدا کے واسطے سودا نہ کر اپنی ہستی کو برہنہ رکھ نظر کے سامنے بات تو جب ہے کہ اپنے آپ سے پردا نہ کر _
حُسن ہی مہر و مہہ کا درپن ہے
حُسن ہی چاندنی کا آنگن ہے
حُسن ہے رازدارِ لالہ و گل
حُسن روحِ بہارِ گلشن ہے
_ دنیا میں وفا آج بھی مل جاۓ گی لیکن لوگوں میں نہیں صرف کتابوں میں ملے گی
کھو کے رہ گیا ہوں میں شہر کے اندھیرے میں
کوئی مہرباں مجھ کو میرے گاؤں پہنچا دے
بدلتی جا رہی ہیں ساری قدریں کہاں کے طور اور کیسے قرینے
وقت بھی کیا کیا گھاؤ مثالی دیتا ہے
بیٹا باپ کو ماں کی گالی دیتا ہے
_ کوئی فرعون سا کوئی نمرود سا ہر قدم یہاں پر ایک خدا دیکھۓ
گنگا جل کی قسمیں کھائی جاتی ہیں
خون میں لیکن ہاتھ بھگویا جاتا ہے
جیسا بھی ہو شہر مگر وہ بات کہاں
گاؤں کا ہم کو میلہ اچھّا لگتاہے
_ گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا مجھ سے پہلے میرا سایہ نکلا
چہرہ ایجاد ہے آئینے کی
آئینہ نکلا تو چہرہ نکلا
_
خس و خاشاک کر دیتی ہے دل کو
محبت پاک کر دیتی ہے دل کو
یہ الفت کی جلن ایسی جلن ہے
جلا کر خاک کر دیتی ہے دل کو
_ اسے کم پیاس تھی ایسا نہیں تھا مگر کم ظرف وہ پیاسا نہیں تھا
انساں کی دید کو مری آنکھیں ترس گئیں
چہرے پہ اک نقاب سی ڈالے ہوئے ہیں لوگ
وہ تو خاموش ہے کیا پوچھ رہے ہو اس سے ہم سے پوچھو کہ ہوا آئینہ گونگا کیسے
رہِ حیات کو آساں بنا سکو تو چلو
ہمارا ساتھ اگر تم نبھا سکو تو چلو
پتا دیتے ہیں جو بھی قافلے والوں کو منزل کا انہیں کو قافلے والے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں _
گلوں کا رنگ ہو پھیکا نہ دیکھا جائے گا مجھ سے
ترا اترا ہوا چہرہ نہ دیکھا جائے گا مجھ سے
_ بلا سے باغباں ناراض ہوتا ہے تو ہو جاۓ چمن میں قتل غنچوں کا نہ دیکھا جاۓ گا مجھ سے
جھوٹ میں اس قدر تھی روانی کے بس
اس کا منہ دیکھتا رہ گیا آئینہ
پھولوں کی یہ خواہش ہے چھو لے تری پیشانی ہونٹوں کو ترے چومے کلیوں کی تمنّا ہے _
تحریر آشکار احمد صدیقی
(مضمون نگارقیصرصدیقی کے چھوٹےبھائی ہیں)