غزل
لاکھ احساس تیرا کشتۂ حالات رہے
ترے ہونٹوں پہ شگفتہ سی کوئی بات رہے
تو نے ہر دور میں الٹی ہے بساط عالم
آج یہ آخری بازی بھی ترے بات رہے
یہ بھی ملنا ہے کہ بس مل کے بچھڑ جاتے ہیں
لطف تو جب ہے کہ اک عمر ملاقات رہے
کائنات ان کے لئے ایک سراب ایک خیال
جو نگہبان حرم محو غم ذات رہے
یوں سر بزم کوئی نغمۂ جاوید سنا
کہ ترے بعد بھی محفل میں تری بات رہے
کیا عجب ایک ہی منزل ہو ہماری اے دوست
راہ کٹ جائے گی دونوں کا اگر سات رہے
اپنا شیوہ کہ جلاتے ہیں اندھیروں میں چراغ
ان کی سازش کہ زمانے میں یوں ہی رات رہے
جو لگاتے رہے ہر حال پہ جاں کی بازی
کیوں جمیلؔ ان کے مقدر میں فقط بات رہے
جمیل ملک