غزل
لاکھ چاہا رک نہ پایا خواہشوں کا سلسلہ
ناتواں دل نے اٹھایا آنسوؤں کا سلسلہ
کیسے خواہش میں کروں پرواز کی تو ہی بتا
دل میں گھٹ کر رہ گیا جب حسرتوں کا سلسلہ
گھر سے گھر کو یوں ملانا کام تو آساں نہ تھا
اپنے ہاتھوں سے بڑھایا نفرتوں کا سلسلہ
تجھ کو ڈھونڈا اس طرح جیسے خدا ہے تو مرا
راہ میں کس نے بنایا مقبروں کا سلسلہ
روح کی گہرائیوں میں تو اتر کر آ گیا
ذہن کی سیڑھی سے آیا قربتوں کا سلسلہ
تجھ کو پا لینا ہی میری منزل مقصود ہے
جا بجا کس نے بچھایا پتھروں کا سلسلہ
زندگی کے دشت میں آیا نہ جب عکس بہار
میں نے خود کو خود دکھایا وحشتوں کا سلسلہ
بہار النساء بہار