غزل
لباس زیست کبھی یوں بھی تیرا درشن ہو
سجی سجائی ہوئی جیسے کوئی دلہن ہو
یہ قحط شعر پڑا ہو نہ قحط غم کے سبب
چراغ اتنا ہی جلتا ہے جتنا ایندھن ہو
یہ میں ہی ہوں جو اداسی نکالتا ہوں تری
ہر اک فصیل میں لازم نہیں کہ روزن ہو
تو اپنے خواب مری آنکھ سے نہ دیکھا کر
برتنے کے لیے بہتر ہے اپنا برتن ہو
عجیب جلدی تھی بچپن میں کب بڑے ہوں گے
بڑے ہوئے ہیں تو جی چاہتا ہے بچپن ہو
کڑی جو ٹوٹی تو ثابت نہیں رہی زنجیر
اہم ہے وہ بھلے چھوٹا سا کوئی بندھن ہو
پارس مزاری