غزل
لب پہ فریاد نہیں دل یہ دوانہ ہی سہی
عشق سچا ہے مرا درد یگانہ ہی سہی
میرے احساس کو پڑھنا ہو تو آنکھوں میں پڑھو
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
کم سے کم کچھ تو ترے ہونے کے آثار دکھے
میرے دل میں تری یادوں کا ٹھکانہ ہی سہی
دو قدم چلنے کی عادت تو پڑے گی ان کو
میں تو خوش ہوں وہ مرے دل سے روانہ ہی سہی
مجھ کو تو اپنا سمجھ کر ہی سناتا ہے سدا
تیرے ہونٹوں پہ رقیبوں کا ترانہ ہی سہی
میرے ہمدم مرے جینے کے لئے کافی ہے
جو ترے ساتھ میں گزرا وہ زمانہ ہی سہی
وار نظروں سے تو اک بار تو کردے ظالم
دل منور کا تری آج نشانہ ہی سہی
منور جہان زیدی