ایک غریب شاعر کی موت
لمحوں میں زندگی کا سفر یوں گزر گیا
سائے میں جیسے کوئی مسافر ٹھہر گیا
مخمور تھا نشے میں غم روزگار کے
ہوش آ گیا تو عمر کا پیمانہ بھر گیا
دولت بھی اس کے ہاتھ نہ آئی تمام عمر
کچھ نام ہی نہ اپنا زمانے میں کر گیا
سب اس کے خیر خواہ بلندی پہ رہ گئے
شہرت کی سیڑھیوں سے وہ نیچے اتر گیا
موقعہ پرست آب و ہوا میں نہ جی سکا
اپنی انا کی قید میں جاں سے گزر گیا
موت اس کی ساری مشکلیں آسان کر گئی
اک بوجھ زندگی کا تھا سر سے اتر گیا
افسوس کم ہوا مگر حیرت بہت ہوئی
جب ؔخواہ مخواہ عین ضعیفی میں مر گیا
غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی