غزل
لمحے شب وصال کے صرف وصال ہو گئے
اس کو بھی نیند آ گئی ہم بھی نڈھال ہو گئے
کیسے حسین لوگ تھے کیسی حسین محفلیں
وہ جو خیال و خواب تھے خواب و خیال ہو گئے
میں بھی تھا رشک آئینہ تم بھی تھے رشک آئینہ
میں بھی سفال ہو گیا تم بھی سفال ہو گئے
مجھ کو تھی ان کی ذات سے ایسی مسابقت کہ بس
جب میں بنا مثال تو وہ بے مثال ہو گئے
چشم وہ ناز آفریں کھل کے برس پڑیں کہیں
ہم سے کئی نہال غم پھر سے نہال ہو گئے
بالوں میں برف تھی یہاں خواہش بھی سرد تھی یہاں
اس نے جو آنچ دی تو ہم شعلہ خصال ہو گئے
گتھی ہے اتنی گنجلک اسرار کائنات کی
جتنے مرے جواب تھے سارے سوال ہو گئے
کایا کلپ ہوئی ہے یوں گرگان دشت سوس کی
گریہ کناں جمال جو زہرہ جمال ہو گئے
امداد آکاش