لوٹ کر آیا نہیں جب سے نکالا گیا ہے
دل مرا عشق کے منصب سے نکالا گیا ہے
جس پہ یہ کفر کا فتوی تھا وہی حق پر تھا
کیسے درویش کو مذہب سے نکالا گیا ہے
ان دریچوں پہ بچھی روشنی تاروں جیسی
چاند بادل سے بڑے ڈھب سے نکالا گیا ہے
فیصلہ ہے مری قسمت کا تو منظور ہے یہ
مرا مہتاب مری شب سے نکالا گیا ہے
اس کا یہ جرم کہ سچ بول دیا تھا اس نے
ایک جوکر تھا جو کرتب سے نکالاگیا ہے
یہ عدالت تھی تری فیصلہ بھی تھا تیرا
بول تیرا تھا مرے لب سے نکالا گیا ہے
سر چڑھی رہتی ہے اک یادِ جنوں ذاد مجھے
عکسِ جانان تھا جو چھب سے نکالا گیا ہے
اسکی دہلیز پہ بیٹھا ہے بشر رنجیدہ
کتنا خاموش ہے وہ جب سے نکالا گیا ہے
مبشر سلیم بشر