لوگوں کو تو ہر بات بتائی نہیں جاتی
تا عرش بھی کیا اپنی دہائی نہیں جاتی
چہرے پہ کئی رنگ مسرت کے ہیں لیکن
حالت دلِ مضطر کی چھپائی نہیں جاتی
یوں اشک مرے دل میں اترتے رہے پیہم
اب لاکھ ہٹانے سے بھی کائی نہیں جاتی
ہم زیست کے قیدی ہیں سزا کاٹ رہے ہیں
تقصیر ہے کیا ہم کو بتائی نہیں جاتی
پندار _ انا سے کبھی باہر نہیں آئے
ورنہ تو کبھی بُوئے گدائی نہیں جاتی
گرچہ ہوں میں دنیا کے حوادث میں گرفتہ
اس دل کی مگر شعلہ نوائی نہیں جاتی
اب ظلمتِ شب چیر کے ابھرے گا سویرا
سورج کی ضیاء قید میں لائی نہیں جاتی