غزل
لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں
تن صحرا اور آنکھ سمندر کیوں رکھتی ہیں
عورتیں اپنے دکھ کی وراثت کس کو دیں گی
صندوقوں میں بند یہ زیور کیوں رکھتی ہیں
وہ جو آپ ہی پوجی جانے کے لائق تھیں
چمپا سی پوروں میں پتھر کیوں رکھتی ہیں
وہ جو رہی ہیں خالی پیٹ اور ننگے پاؤں
بچا بچا کر سر کی چادر کیوں رکھتی ہیں
بند حویلی میں جو سانحے ہو جاتے ہیں
ان کی خبر دیواریں اکثر کیوں رکھتی ہیں
صبح وصال کی کرنیں ہم سے پوچھ رہی ہیں
راتیں اپنے ہاتھ میں خنجر کیوں رکھتی ہیں
عشرت آفرین