لگا کے سینے سے غم کس کا انتظار کیا
شکار ہم ہوئے یا ہم نے کچھ شکار کیا
ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے تھے دیکھا نہیں
ہماری ذات پہ کس نے کہاں سے وار کیا
جو ساحلوں کی طلب میں تھیں کشتیاں دل کی
انہیں بھی عشق کی لہروں نے داغدار کیا
یہ صرف میرے جنوں کی ہی تو کہانی نہیں
یہاں پہ جو بھی چلا آیا اس نے پیار کیا
جھلکنے لگ گئی آنکھوں سے عمر بھر کی تھکن
تری جفاؤں کو گن گن کے جب شمار کیا
بس ایک جرم کیا ہم نے مانتے ہیں ہم
محبتوں کو زمانے پہ آشکار کیا
خلاصی رنج و الم سے ملی تو پھر ہم نے
نہ اعتبار کسی کا کیا نہ پیار کیا
محبتوں کا اثر دیرپا نہیں ہوتا
یہ جانتے ہوئے خود پر اسے سوار کیا
وہ نفرتوں کے بھی قابل نہیں تھے لوگ شمیم
جنہیں کہانی میں اپنا کبھی شمار کیا
شمیم چودھری