لہروں کے پیچ و تاب میں گرداب کھو گئے
کن بادلوں میں سب مرے مہتاب کھو گئے
نغمے سخن کی موت پر خود آپ مر گئے
سازوں کو چھیڑتے ہوئے مضراب کھو گئے
خطرات سے خرد نے جو آگاہ کر دیا
اِس آگہی میں عشق کے آداب کھو گئے
گویا کہ زندگی کا سفر رائیگاں رہا
اب ہست و بود کے سبھی اسباب کھو گئے
مصروفیت کے ایسے بہانے کہ الاماں
بیگانگی کی دھند میں احباب کھو گئے
بھٹکےہوئےتھےشوق کےصحرامیں جاں بلب
محوِ سراب تشنہ و بے آب کھو گئے
کچھ یوں فریبِ زیست میں کھوئ ہوئ تھی نور
کہ غفلتوں میں منبر و محراب کھو گئے
نورِ شمع نور