لہرو بتاؤ کیا تمھیں وہ سلسلے ملے
دریا کے بیچ پھر کہاں کچے گھڑے ملے
اِک دکھ تھا ہم سے وہ بھی چھپایا نہیں گیا
آنکھوں میں ایک یاد کے موتی جَڑے ملے
مصروف اس قدر ہوں کہ، گم ہو گیا ہوں میں
پر خود سے ملنے آتا ہوں جب بھی سَمے ملے
آنکھیں جلائیں، خواب کی ایسی طلب ہوئی
خوابوں کی رہگزار ملی، رتجگے ملے
سپنے ہزار پاوں کی زنجیر بن گئے
دریا کے سامنے مجھے دریا کھڑے ملے
ہنستے ہوۓ گزار دی عمرِ رواں مگر
اے یار زندگی سے ہمیں دکھ بڑے ملے
ٹھیکہ ہوا تو باغ کے سب بک گئے شجر
بکھرے ہوۓ زمیں پہ بہت گھونسلے ملے
اس شہر میں یہ خوف بشؔر کس طرح کا تھا
سہمے ملے ہیں لوگ مجھے سب ڈرے ملے
مبشر سلیم بشؔر