غزل
مارنے والی امنگوں کی طرح ہوتا ہے
عشق بارودی سرنگوں کی طرح ہوتا ہے
روشنی مجھ پہ بھی اتنا ہی اثر کرتی ہے
میرا جلنا بھی پتنگوں کی طرح ہوتا ہے
بعد میں آتی ہے تہذیب محبت صاحب
ہر کوئی پہلے لفنگوں کی طرح ہوتا ہے
اس سے بچنا ہی مناسب ہے ذرا دھیان رہے
ہجر سفاک نہنگوں کی طرح ہوتا ہے
ہے مری عشق کی درگاہ سے نسبت سو مرا
بیٹھنا اٹھنا ملنگوں کی طرح ہوتا ہے
یہ ہے جذباتی مکینوں کا علاقہ اعجازؔ
سو یہاں امن بھی جنگوں کی طرح ہوتا ہے
اعجاز توکل