مانتے سب ہیں کہ تقدیر کسی اور کی ہے
یہ نہیں جانتے تبدیر کسی اور کی ہے
تو نے چہرے پہ خراشیں جو سجا رکھی ہیں
ایسے لگتا ہے کہ تصویر کسی اور کی ہے
سر کی دستار اسی ڈر سے اتار آیا ہوں
نام میرا ہے یہ توقیر کسی اور کی ہے
اس لیے چپ ہوں میں اظہار نہیں کر سکتا
شعر کہتا ہوں تو تشہیر کسی اور کی ہے
لوگ چلتے ہیں محبت کے سفر میں ایسے
پاؤں اپنے ہیں تو زنجیر کسی اور کی ہے
روتے پھرتے ہیں خطاؤں کہ یہ پتلے سارے
ہم تو مارے گئے تقصیر کسی اور کی ہے
پھر بھی رانجھے نے محبت نہیں چھوڑی ورنہ
جانتا تھا کہ مری ہیر کسی اور کی ہے
تجھ کو پا کر مجھے احساس ہوا ہے مظہر
میرا قبضہ ہے تو جاگیر کسی اور کی ہے
محمد مظہر نیازی