ماہر اجمیری عہد حاضر کے قادرالکلام شاعر
پھلوں کے شہنشاہ میٹھے آموں سے شہرت رکھنے والا سندھ کا چوتھا بڑا شہر میرپورخاص جو ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے، اور اس کی زرخیز مٹی نے گلشن ادب کو معیاری شاعر، ادیب،لکھاری دیئے۔ اسی شہر میں میں سکونت اختیار کرنے والے استاذ الاساتذہ شاعر محمد حسین المعروف ماہر اجمیری عہد حاضر کے قادرالکلام شاعر تو ہیں مگر شعر و ادب کے خادم بھی۔عمر رواں کی نصف صدی میں شاعری کی تمام اصناف پر دسترس تو حاصل رہی مگر دبستان میرپورخاص کو ادبی گہوارہ بنانے میں ہمہ وقت کوشاں موجودہ ادبی ماحول کو دیکھ کر لب کشائی کرتے ہیں تو بے اختیار منہہ نکلنے والے الفاظ دور اندیشی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔۔
منظر اداسیوں کے اب اختتام پر ہیں،
محرومیوں کا عالم خوشیوں میں ڈھل رہا ہے،
ماہر وطن میں شائید آمد ہےفصل گل کی،
سب لوگ کہہ رہے ہیں موسم بدل رہا ہے،،
یقننآ جس انداز میں شعر و ادب کی سوشل میڈیا ،ویب کے صفحات و دیگر انٹر نیٹ میڈیا پر شعر و ادب کو عروج حاصل ہو رہا ہے۔ وہ ظاہر کررہا ہے کہ مایوسی اور اداسی کا موسم بدلنے والا ہے ۔۔شومئی قسمت انسانی آنکھ دیکھتی تو سب کچھ ہے مگر ذہن اور دل اسے تسلیم کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔اس امر سے انکار ناممکن ہے کہ انسانی پرکھ کی کسوٹی صرف اور صرف روئیہ ہی ہے۔کیونکہ انسانی روئیہ ہی اسکی، فکر، وضع داری اور شخصیت کا عکاس ہوتا ہے،بلا شبہ زندگی میں نامساعد حالات کے باوجود روئیہ میں تبدیلی نہ لانے والے ہی انسانیت کی منزل تک پہنچ کر امر ہوجاتے ہیں، خلوص ،عاجزی ،اپنائت ،انکساری،اور وضع داری جیسے الفاظ شائید آج تک توانا ہیں تو اس میں موصوف کے حوصلہ مند عزائم، ارادے کے پختگی ، کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، انتہائی محبت نچھاور کرنے والے شفیق مہرباں ،دوسروں کے اقدام کو نگاھ تحسین سے دیکھنے، پرکھنے، لوگوں کو جائیز مقام و عزت دینے، مفکر المزاج باکمال، نابغہ عظیم شخصیت نے اپنے روئیہ کو مثالی بنانے۔ کے لیے دنیائے ادب میں 5 مئی 1942 کو اجمیر شریف کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔
، محمد حسین شیخ المعروف ماہر اجمیری نے قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے صوبہ سندھ کے شہر میرپورخاص میں سکونت اختیار کی، اور اسی شہر سے ملازمت کی ابتدا کی،، دوران ملازمت بالخصوص2001 میں ملازمت کی فراغت کے بعد شعر و ادب میں روز و شب خود کو ادب کی خدمات اور فروغ کے لیے وقف کردیا،اور ادبی تنظیم،، فن کدہ، بزم اقبال، حلقہ ارباب ادب،بزم تعمیر ادب میرپورخاص ،بزم فکرونظر،سیارہ ادب،آرٹس کونسل میرپورخاص، مکالمہ،اور دستک،، پر ادب کی کنڈی بجا کر دستک دیتے رہے،،، موصوف کی ادبی خدمات و صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے ڈسٹرکٹ کلچرل ایسوسی ایشن میرپورخاص، ڈائمنڈ فرینڈس میرپورخاص، سنئیر سٹیزن،روٹری کلب میرپورخاص، جناح چلڈرن اکیڈمی میرپورخاص نے حوصلہ افزائی کرتےہوے مختلف اعزازات و اسناد سے بھی نوازا،، واضح رہیکہ مذکورہ اداروں کی جانب سے ملنے والی اسناد و اعزاز تو اہمیت کے حامل ہیں مگر میرپورخاص کو ادبی گہوارہ بناے بالخصوص نوجوانوں کو شعر و ادب کی جانب راغب کرنے میں ماہر اجمیری کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،اور تاحال83 سال کی عمر میں بھی ادب کے میدان میں کسی سے کم نہیں،،،
یہاں یہ امر قابل تحسین ہے کہ شاہ عبدالطیف کالج میرپورخاص شعبہ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر اجمیری کے ہونہار شاگرد نوید سروش نے اپنی کاوشوں سے ماہر اجمیری کی خواہش کے مطابق قرطاس زہن میں موجود تین کتب، نعتیہ مجموعہ محور کائنات،غزلیات کا مجموعہ عزت رسوائی،اور نظموں کے مجموعے،، میری محبت میری زمین، کو کتاب،، موسم بدل رہا ہے،، کے نام سے خوابوں کی آماجگاہ سے نکال کر صفحہ قرطاس پر 2012 میں منتقل کرکے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیے کر کتابی شکل میں امر کردیا،، جبکہ میرپورخاص سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور ہونہار شاگرد حبیب اللہ طبیب نے 2020 میں ماہر اجمیری کی شخصیت اور فن پر بھی طبع آزمائی کی ہے،، جبکہ موصوف کی شاعر مشرق علامہ اقبال پر تحقیقی کتب بھی طباعت کے آخری مرحلے میں ہے جو عنقریب ادبی ذوق کے حامل افراد کے ہاتھوں میں ہوگی،
ماہر اجمیری عہد حاضر کا ایسا شاعر جسے دنیاے ادب بالخصوص سندھ میں وہ مقام حاصل ہے جو شاعری کی تمام اصناف پر دسترس رکھنے والے شعراء کو ہوتا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ ارباب اختیار و اہل نظر اردو ادب کی نظروں سے ماہر اجمیری تاحال اوجھل کیوں ہیں،،؟؟؟
دوست بن کر عمل دشمنی کا،
یہ بھی کردار ہے آدمی کا،
کہہ رہے ہیں زباں سے تو اپنا،
اور برتاؤ ہے اجنبی کا،
تحریر فیاض الحسن فیاض