غزل
مایوسیوں کو اوڑھ کے سونا پڑا ہمیں
دن کو ہنسے تو رات کو رونا پڑا ہمیں
وہ جس کو ڈھونڈنے میں گزاری تمام عمر
یہ کیا ستم کہ پھر اسے کھونا پڑا ہمیں
یہ اختیاری فیصلہ تھا یا کچھ اور تھا
تم سے ملے تو پھر جدا ہونا پڑا ہمیں
وہ ایک نام چاہ سے لکھا تھا بارہا
دل سے اسے پھر آنکھ سے دھونا پڑا ہمیں
تاراؔ کنارے آ لگی کشتی جب ایک دم
گرداب میں پھر آپ کو کھونا پڑا ہمیں
طاہرہ جبین تارا