مجھے تو خود نہیں معلوم یہ ہوا کیسے
کہ اپنی عمر سے لگنے لگا بڑا کیسے
خود اپنے گھر کے ہی افراد جس کے دشمن ہوں
نشہ کسی کے وہ کہنے پہ چھوڑتا کیسے
بچا لیا تو دوبارہ بھٹکتی موجوں میں
شکار کی گئی مچھلی کو چھوڑتا کیسے
پکڑ گناہ پہ جب ہوگی روزِ حشر مری
کروں گا ماں کی نگاہوں کا سامنا کیسے
وہ میرے سامنے آتا تو کچھ نہیں کہتا
میں اُس کے سامنے جاتا تو بولتا کیسے
میں جس زمین پہ رہتا ہوں وہ ہے گردش میں
سنبھالتا بھی تو خود کو سنبھالتا کیسے
میں اُس سے ترکِ تعلّق نہ کرسکا بابر
پھنسا تھا خار میں دامن تو کھینچتا کیسے
فیض عالم بابر