مجھے خود میں سمائے پھر رہی ہے
ہوا مجھ کو اُڑائے پھر رہی ہے
ٹھکانہ مل سکا نہ اس نگر میں
مجھے قسمت بھگائے پھر رہی ہے
امیرِ شہر کی نیّت ہماری
تمنّائیں دبائے پھر رہی ہے
گڑی ہیں سُولیاں ہر ہر قدم پر
قضا مقتل سجائے پھر رہی ہے
ہے سر پہ سائباں گو بادلوں کا
تپش پھر بھی ستائے پھر رہی ہے
عجب لڑکی ہے اپنے خواب سارے
وہ مُٹھی میں دبائے پھر رہی ہے
گلہ ساحل سے کیا جب خود ہی کشتی
گلے موجیں لگائے پھر رہی ہے
عجب ہے دورِ بے باکی یہاں پر
حیا بھی منہ چھپائے پھر رہی ہے
ہتھیلی پہ قضا منصور اپنی
تری صورت بنائے پھر رہی ہے
منصور سحر