غزل
مجھے وہ گر کسی کالم میں چھاپ بھی دےگا
کہاں وہ اس پہ مگر سرخئٍ جلی دے گا
سسکتا کانپتا آواز کا سیہ سورج
بھڑک اٹھا تو زبانوں کو شعلگی دے گا
بکھر رھے ہیں بدن دھوپ کی تمازت سے
یہ دور تو ہمیں صحرا سی ریزگی دے گا
سیہ گھٹاؤں سے برسے گا آتشیں ویپن
زمیں کو تحفے میں جھلسی ہوئی صدی دے گا
پھر اس کے ہاتھ میں تعریف کا قلم ہوگا
ورق کے جسم کو نقشٍ خوشخطی دے گا
زاہد حسین جوہری