مجھے کل اچانک خیال آ گیا آسماں کھو نہ جائے
سمندر کو سر کرتے کرتے کہیں بادباں کھو نہ جائے
۔
کوئی نا مرادی کی یلغار سینے کو چھلنی نہ کر دے
کہیں دشت انفاس میں صبر کا کارواں کھو نہ جائے
۔
یہ ہنستا ہوا شور سنجیدگی کے لیے امتحاں ہے
سو محتاط رہنا کہ تہذیب آہ و فغاں کھو نہ جائے
۔
اسے وقت کا جبر کہیے کہ بیچارگی جسم و جاں کی
مکاں کھونے والوں کو ڈر ہے کہ اب لا مکاں کھو نہ جائے
۔
میں اپنے ارادوں کی گٹھری اٹھائے کہیں جا نہ پایا
ہمیشہ یہ دھڑکا رہا محفل دوستاں کھو نہ جائے
۔
یہ قصوں کی رم جھم میں بھیگا ہوا حلقۂ گفتگو ہے
یہاں چپ ہی رہنا کہ تاثیر لفظ و بیاں کھو نہ جائے
۔
یہاں کس کو فرصت کہ آغاز و انجام کو یاد رکھے
سبھی کو یہ تشویش ہے وقت کا درمیاں کھو نہ جائے
۔
یہ بازار نفع و ضرر ہے یہاں بے-توازن نہ ہونا
سمیٹو اگر سود تو دھیان رکھنا زیاں کھو نہ جائے
۔
اٹھو عزمؔ اس آتش شوق کو سرد ہونے سے روکو
اگر رک نہ پائے تو کوشش یہ کرنا دھواں کھو نہ جائے
عزم بہزاد