غزل
مجھ سے پہلے مری تصویر ترے ہاتھ میں ہے
اور مرے خوابوں کی تعبیر ترے ہاتھ میں ہے
دور ہرگز نہ سمجھنا مرے ہمدم مجھ کو
یہ تصور نہیں تنویر تیرے ہاتھ میں ہے
سوچتے رہتے ہیں ہر گام پہ یہ طرز حیات
اور اثبات کی زنجیر ترے ہاتھ میں ہے
کس طرح سے یہ شب و روز گزارے ہم نے
ہر تخیل ترا توقیر ترے ہاتھ میں ہے
دور ہوں تجھ سے مگر ساتھ ہوں سائے کی طرح
اے مری زندگی تقدیر ترے ہاتھ میں ہے
اس طرح سے مرے دل نے کبھی سوچا بھی نہ تھا
اپنی پہچان کی تدبیر ترے ہاتھ میں ہے
کوئی پیمان وفا بھی نہ کیا تھا ہم نے
ہوں نشانے پہ ہر اک تیر ترے ہاتھ میں ہے
بیگم سلطانہ ذاکر ادا