مجھ کو اک خواب بِتانے میں بڑی دیر لگی
رات کی بات بھلانے میں بڑی دیر لگی
پیٹ کی آگ تو بجھتی رہی اشکوں سے مگر
ہجر کی آگ بجھانے میں بڑی دیر لگی
لمس پوروں میں اترتا رہا جستہ جستہ
تیری تصویر بنانے میں بڑی دیر لگی
راہِ پُر خار کا قصہ تو سنایا ہم نے
آبلے اُن کو دکھانے میں بڑی دیر لگی
میں نے پایا تھا فقط ایک مہکتا لمحہ
سو ترے خواب سجانے میں بڑی دیر لگی
دشت تنہائی میں تھیں ساتھ تمہاری یادیں
ہم کو وہ شام بِتانے میں بڑی دیر لگی
حسن خیرات کی صورت میں بٹا تھا عابد
ہم کو کشکول اُٹھانے میں بڑی دیر لگی
حنیف عابد