مجھ کو معلوم تھا منزل کا پتا مجبوراً
وہ مرے ساتھ بہت دور چلا مجبوراً
آج تزئین چمن کرنا ضروری تھا بہت
کر دیا شاخ سے پھولوں کو جدا مجبوراّ
ایک جگنو تھا ادھر رات کی تاریکی تھی
روشنی کرنے لگا بجھتا دیا مجبوراً
آج وہ بزم میں دنیا کو دکھانے آیا
جبر سے میں نےکہا اس نے سنا مجبوراً
مسکراہٹ تو ہے محفل کی خوشی کے خاطر
ہاتھ پہ رجتی نہیں ہے کیا حنا مجبوراً
سید غضنفر علی