محاسنِ شاعری

  • قواعد و عروض کی پابندی (وزن)

غزل یا نظم جن قواعد کے مطابق لکھی جاتی ہے ان قواعد کا دھیان رکھنا چاہیئے۔ وزن کے پیمانے شعراء و اساتذہ نے پہلے ہی مقرر کر دیئے ہیں۔ پہلے بھی اشعار کہے جاتے تھے جب عروض اور وزن کے پیمانے دریافت نہیں ہوئے تھے۔ عرب میں بہت اچھے شعراء گزرے ہیں۔ شاعری کو قواعد و عروض کا پابند کرکے باقاعدہ علم کا درجہ بھی عرب میں دیا گیا۔ خلیل ابن احمد بصری نے جو کہ عربی علوم  کا ماہر تھا، شاعری کو اوزان بخش کر اس کو باقاعدہ علم بنا دیا۔ مختلف ادوار سے گزرنے کے بعداوزان میں اضافے کیے گئے۔
غزل اور نظم میں ان مقررہ اوزان یا بحروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی پابندی نہ کرنے سے خیال چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو شعر کی ادبی حیثیت متعین نہیں ہوتی۔ بحر کا استعمال اور وزن کا خیال رکھنے سے شعر میں آہنگ یعنی صوت پیدا ہوتا ہے۔ نثری نظم میں اوزان و بحور کی پابندی نہیں کی جاتی اسی لیے اساتذہ اور بڑے شعرا کے نزدیک نثری نظم قابل اعتنا نہیں ہے۔

  • قافیہ و ردیف

شاعری کی مختلف اصناف ہیں۔ غزل پابند نظم، آزاد نظم، نظم معرا وغیرہ۔ غزل اور پابند نظم قافیہ اور ردیف کی پابند ہوتی ہیں۔ اور ردیف اور قافیہ کا مناسب انتخاب شعر کے ابلاغ میں حسن پیدا کرتا ہے۔ بسا اوقات ردیف قافیہ وارد ہوتا ہے۔ یعنی اچانک کچھ اشعار خود بخود تخلیق ہو جاتے ہیں۔ بقیہ غزل کو مکمل کرنے کے لیے اسی کے قافیہ و ردیف میں مزید اشعار کہے جاتے ہیں۔ ردیف وہ الفاظ ہیں جن سے ہر شعر کا اختتام ہوتا ہے ایک غزل میں ہر شعر کا  ایک ردیف رکھا جاتا ہے۔ اور ہم قافیہ الفاظ ہوتے ہیں۔ ردیف اور قافیہ کے امتزاج سے اشعار میں زیادہ نغمگی پیدا ہوتی ہے۔ آزاد نظم میں ردیف اور قافیہ کی پابندی ضروری نہیں۔ اسی طرح نظم معرا میں صرف وزن یعنی بحر کا دھیان تو رکھا جاتا ہے لیکن ردیف قافیہ نہیں ہوتا۔

ان کے آنے سے جو آجاتی ہے رونق منہ پر 
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے  (غالب)

غالب کی اس غزل میں ردیف "اچھا ہے” استعمال کیا گیا ہے۔ اور قافیہ یعنی ہم آواز الفاظ سفال، حال اور ماٰل وغیرہ استعمال کیے گئے ہیں۔

  • تضاد :

 ایک شعر میں دو متضاد الفاظ کا استعمال جیسے صبح اور شام، غم اور خوشی، رات اور دن، زمین اور آسمان، جاہل اور عالم، خدا اور صنم، بہار اور خزاں، پھول اور کانٹے وغیرہ

اب تو یوں بسر روز و شب کے ہوتے ہیں 
تھوڑی دیر ہنستے ہیں، تھوڑی دیر روتے ہیں 

تضاد میں ایسے لفظ بھی آتے ہیں جو صرف معنی کے لحاظ سے  ضد ہوں۔

حوصلہ کب تھا جو کھل کر سامنے آتا وہ شخص 
وہ مخالف بھی ہوا میرا تو درپردہ ہوا 

  • صنائع بدائع

صنائع بدائع کا استعمال بھی شعر کا حسن ہے۔ اس میں اول الذکر صنائع لفظی ہے جس میں صنعت تجنیس اہم ہے، جس کے مطابق ایک شعر میں دو یا دو سے زیادہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جو دیکھنے اور ادا کرنے میں ایک جیسے یوں لیکن مختلف معانی ادا کرتے ہوں۔ مثلا:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

دوسری صنعت اشتقاق ہے یعنی شعر میں ایسے لفظ جمع کر دیئے جاتے ہیں جن کا مصدر ایک ہوتا ہے ۔ مثلا:

اصل شہود شاہد و مشہود ایک ہیں 
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

صنائع بدائع میں صنعت تکرار اور صنعت تلمیح بھی شامل ہیں۔

  • تکرار الفاظ (صنعت تکرار)

الفاظ کی برمحل تکرار شعر کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ تکرار الفاظ سے مراد اشعار میں ایک لفظ کو دو یا دو سے زیادہ بار اس طرح برتنا کہ الفاظ اپنی جگہ اپنا بھر پور مطلب عیاں کریں۔

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں 
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں  (اقبال)

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں     (غالب)

کفرو حق کا جہاں معرکہ دیکھنا 
کربلا کربلا کربلا دیکھنا   (جبران)

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ  
جبیں افسردہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ 

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ  
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ    (اقبال عظیم)

جاں دی، دی ہوئی اسی کی تھی 
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ 
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا 

  • سیاقتہ الاعداد:

تکرار  کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عوامل یکجا ہو کر ایک حالت کو بیان کریں اسے سیاقتہ الاعداد کہتے ہیں۔

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں   (غالب)

منتظر مضطرب تھا میرا دل 
دیر تم نے لگا دی آنے میں 

آرزو ،  انتظار ،  امیدیں  
اب یہی رہ گیا فسانے میں       (شمسہ نجم)

  • اظہار عشق:

اظہار عشق بھی شاعری کے محاسن میں آتا ہے چاہے کہ حقیقی ہو یا کہ مجازی۔
تشیب و نسیب :
شیب : حقیقی یا مجازی محبوب پر شاعری کرنا
نسیب : عام عشقیہ جذبات کا اظہار ہے
شاعری میں ان دونوں کی موجودگی ملحوظ خاطر رکھنا حسن شاعری ہے۔

  • روانی و سلاست

کلام میں روانی اور سلاست شعری حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ زبان پر گرفت، محاورہ، روزمرہ الفاظ، صرف و نحو اور تشبیہہ و استعارہ کا برجستہ استعمال روانی اور سلاست میں اضافہ کرتے ہیں۔ اور شاعری میں روانی بحور پر عبور سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ترنم اور غنائیت کے لیے مشق کی ضرورت ہے۔ اس مقام سے سب شعرا گزرتے ہیں بڑے شعراء کے بھی سیکھنے کے دور کی شاعری اور پختہ عمر کی شاعری میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔

  • توجیہہ

اس میں ایک کلام کے دو متضاد پہلو نکلتے ہیں جیسے تعریف اور برائی۔ دعا اور بدعا مثلا

اب یہ حالت ہے کہ ان سا بے درد  
میرے بچنے کی دعا مانگے ہے    (نا معلوم)

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں  
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں  (غالب)

  • تجاہل عارفانہ

شعر میں تجاہل عارفانہ اس وقت آتا ہے جب شاعر کو حقیقت کا علم ہے لیکن انجان بنتا ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی  

۔۔جانے والا تو جا چکا جبران 
کیوں تجھے انتظار رہتا ہے 

  • نازک خیالی

شعر کا حسن اس کی نازک خیالی بھی ہے۔ 
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 

آ کے میری جاں قرار نہیں ہے 
طاقت بے داد انتظار نہیں ہے 

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے              (میر)

صرف پتھر ہی نہیں جلتے غم کی آگ میں ب
رف سے بھی ہم نے دیکھا ہے دھواں اٹھتا ہوا          (راہی)

ایک تبصرہ چھوڑیں