- مدح اور ذم
کسی کی تعریف اس انداز سے کرنا کہ وہ خوبیوں کا مرقع معلوم ہو حتی کہ اس کی برائی کو بھی اس کی خوبی بنا کر پیش کرنا۔
مدح کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خوبی بیان کرکے کوئی حرف استثنا جیسے لیکن مگر یا پر کہہ کر رکنا اور پھر ایک اور خوبی بیان کر دینا۔ جب کہ دھوکہ ہو کہ شاید برائی بیان ہونے والی ہے۔
مدح کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ تعریف بیان کی جائے اور پھر برائی کو بھی اچھائی بنا کر پیش کر دیا جائے۔
اور برائی بیان کرکے حرف اسثنا استعمال کرکے ایک اور برائی بیان کر دی جائے۔
- استبتاع
اس طرح تعریف کرنا کہ ایک خوبی سے دوسری خوبی نکل آئے
- ادماج
ادماج کا مطلب ہے لپیٹ دینا۔ لیکن یہ دراصل ایک مدعا یا عمل کے تحت دوسرا مدعا یا عمل انجام پانا ہے مثلا
کی بعد میرے قتل کے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
- صنعت توشیح:
ہر مصرعہ یا شعر کے حرف اول کو دیگر مصرعوں کے اول حروف کو ملانے سے کوئی نام یا عبارت حاصل ہو جائے۔ اسے صنعت توشیح کہتے ہیں یہ بھی شاعری کے محاسن میں سے ایک ہے۔ یہ قطعہ میں نے آٹھ سالہ بچی زینب کے قصور پاکستان میں زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کے واقعے پر معصوم زینب کے لیے لکھا ہے۔
ز ۔ ی ۔ ن ۔ ب (زینب)
ز۔۔۔۔۔ زمانہ رحم کے جذبے سے ہی لاعلم ہے شاید
ی۔۔۔۔۔یہی دستور دنیا ہے یہی اب رسم ہے شاید
ن۔۔۔۔۔نہیں ہے یاد وہ بے موت جو ماری گئی بچی
ب۔۔۔۔بھلانا ظلم کو ایسے توخود پر ظلم ہے شاید (شمسہ نجم)
- استہفامیہ انداز
شعر میں استفہامیہ انداز بھی شعر کا حسن کہلاتا ہے۔ اور عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ شعر زیادہ موثر اور دل پر اثر کرنے والا ہوتا ہے جس میں سوال اٹھایا جائے۔ لیکن استہفامیہ شعر کے دونوں مصرعوں کا باہم ربط ہر عام شعر کی طرح استوار رہنا چاہیئے بلکہ دونوں مصرعوں کی بونڈنگ اور مضبوط ہونا چاہیئے۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ (اقبال)
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ (غالب)
کچھ التفات تو نے زیادہ تو کر لیا
پر اپنے دل کو تو نے کشادہ تو کر لیا؟ ( شمسہ نجم)
- تعلی اور نئی راہیں(زمینیں) ڈھونڈنا اور جدت طرازی یا ابداع
ابداع کا مطلب ہے نیا تخلیق کرنایعنی موجد اور مبدع ہونا۔
شاعری میں نئی زمینوں کا استعمال شعر کا حسن ہی نہیں ایک شاعر کی مستند حیثیت متعین کرتا ہے۔ نئے خیالات نئی جہتوں اور نئی راہوں سے قاری یکساننیت کا شکار نہیں ہوتا اور ادب کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچتا ہے۔ نئی تخلیق شاعر کی اپنی ایجاد ہوتی ہے۔ جدت طرازی سے اکتاہٹ اور یکسانیت نہیں ہوتی۔ تقلید کرنے میں برائی نہیں بڑے شعرا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی ہی زمینوں میں مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن پر وقت کے چھوٹے اور بڑے شعراء طبع آزمائی کرتے ہیں۔ لیکن سارا کلام ہی دوسروں کا مرہون منت ہو یہ مناسب ہے نہ جائز۔
- تصرفات لفظی
یعنی کسی نام یا چیز کو کئی دوسرے ناموں سے بلانا۔ جیسے کہ بادشاہ کو ظل الہی یا شہنشاہ وغیرہ بلانا
- ضرب المثال کا استعمال
ضرب المثال کا برمحل استعمال شعر کے حسن میں اضافہ کا باعث ہے۔ لیکن بھرتی کے لیے اور غیرضروری ضرب المثال کا استعمال نامناسب ہے۔ ضرب المثل جیسے کہ
اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا
ضرب المثل کئی بار شعر کا حسن دوبالا کرنے کے ساتھ ساتھ شعر کا معیار انتہائی بلند کر دیتی ہے۔
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
- مجاز مرسل
حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی استعمال کیے جائیں لیکن یہ تشبیہہ کی بجائے کسی اور سبب سے استعمال کیے گئے ہوں۔ مثلا بارش برس رہی ہو تو لوگ کہہ دیتے ہیں اناج برس رہا ہے یا ہن برس رہا ہے۔
- حسن تعلیل
حسن لطیف سے کام لینا۔ ایک وصف یا صفت موجود ہے لیکن اس کی لطیف خیال کے ذریعے دوسری توجیح پیش کرنا۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں (غالب)
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں (فراز)
عروض کی بیشتر کتب کے مطابق کسی صفت کے لیے غیر واقعی سبب بیان کرنا۔
صفت حقیقت میں ہو اور اس کا حقیقی سبب بھی موجود ہو۔ لیکن اصل سبب کو سبب نہ کہے بلکہ اپنی طرف سے ایک اور لطیف سبب بیان کرے۔ مثلا
ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا
- لزوم مالایلزم یا خود ساختہ شرائط کا نفاذ
کسی شرط کا خود پر لاگو کرنا یعنی کوئی چیز نہ ہو اسے لازم بنا لینا۔ جیسے کہ کسی شعر میں نقطے والے الفاظ سے گریز کرنا۔ مثلا
ہو سرور اور کو مہ کامل
دکھ ہو اور درد ہو سو اس دل کو
ایسے شعر کو "غیر منقوط” کہتے ہیں۔
- ذوقافیتین
ایک شعر میں دو یا تین قافیے ہوں۔ یا دو قافیوں کے درمیان ردیف بھی ہو۔
درج ذیل شعر میں وزن سے صرف نظر کیجیے صرف قافیے کو دھیان میں رکھیے۔
ڈھلکے ڈھلکے، آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے
ان کی تمنا ان کی محبت
دیکھو سنبھل کے دیکھو سنبھل کے (ادا جعفری)
دو قافیے کی ایک اور مثال:
غیر کے آنے میں گھر ترے ہے نقصان ترا
میں ترے واسطے کہتا ہوں کہا مان مرا
- تشبیہہ کا استعمال
تشبیہہ کے لغوی معنی ہیں مشابہت، بمثل اور کسی شے کو دوسری شے جیسا یا اس کی مانند قرار دینا۔ اس کا ایک مطلب ہے مثال دینا۔
یعنی کسی خاص صفت یا خصوصیت کے مشترک ہونے کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا تشبیہہ کہلاتا ہے۔
کسی شخص یا چیز کی خوبی یا وصف یا برائی کی کسی ایسی چیز کی مثال دینا یا موازنہ کرنا جس چیز کی وہ خوبی معروف و مشہور ہو اور اس کا خاصا ہو، تشبیہہ دینا کہلاتا ہے۔ کسی کی بزدلی کے لیے گیڈر کی مثال دینا اور بہادری کے لیے شیر کی مثال دینا،اسی طرح کسی چالاک انسان کو لومڑی کہنا، کسی کے ظلم کے کثرت کی وجہ سے چنگیزخان یا ہٹلر کہنا، سنگ دل کو پتھر اور نرم دل کو موم کہنا وغیرہ تشبیہات ہیں۔ کیونکہ گیڈر ڈرپوک جانور کہلاتا ہے۔ شیر کی قوت اور بہادری سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ظلم اور جبر میں چنگیز خان اور ہٹلر کا کوئی ثانی نہیں۔