محاسنِ شاعری

  • استعارہ کا استعمال

استعارہ کے لغوی معنی ہیں مانگ لینا۔ یعنی عاریتاحقیقی معنی کا غلاف مجازی معانی پر چڑھانا جیسے کالی گھٹا کہہ کر محبوب کے سیاہ بال مراد لینا۔ نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ اور سرو قامت سے لمبا قد، عمر خضر سے طویل العمر وغیرہ۔ استعارے میں ایک چیز کو ہوبہو دوسری چیز مان لیا جاتا ہے۔ جیسے کہ بہت سیدھی سادی اور شوہر کے اشاروں پر چلنے والی اور اپنی خوشیوں اور انا کی قربانی دینے والی عورت کو ستی ساوتری کا لقب دیا جاتا ہے۔ استعارہ اور تشبہہ میں ایک نازک  اور بنیادی فرق ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ تشبیہہ میں دونوں کا ذکر ہوتا ہے جس کی تشبیہہ دی جائے اور جس سے تشبیہہ دی جائے جبکہ استعارے میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جسے استعارہ بنایا جائے۔ لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ استعارہ کا استعمال صحیح اور بر محل ہو۔ زبردستی استعارہ بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیئے۔

  • کنایہ :

کنایہ کا مطلب ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے جن سے واضح اور صاف مطلب اخذ نہ کیا جائے لیکن کسی کی بابت ایک رائے یا تاثر بھی واضح ہو جس سے کسی کی کردارنگاری میں مدد ملے۔ کنایہ کا مطلب ہے چھپا کر بات کرنا۔ یعنی الفاظ کے غلاف میں لپیٹ کر بات کہنا۔ کنایہ کی بھی اقسام ہیں۔ تعریض، تلویح، رمز ،ایما۔

 کنایہ اور استعارہ علامت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ علامت شاعری اور نثر دونوں میں حسن پیدا کرتی ہے۔ راست بیانیہ کا حسن اپنی جگہ مسلم ہے۔لیکن علامت کے ذریعےڈھکے چھپے الفاظ میں مافی الضمیر بیان کرنا فی زمانہ رحجان کے حساب سے شعر و نثر میں ندرت لاتا ہے۔

  • مطلع کی اہمیت:

مطلع کے لیے اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ عمدہ شیریں اور جدت لیے ہو۔ پوری غزل کے لیے کشش پیدا کرے۔ اور دونوں مصرعوں میں ربط ہو۔ اور ایطائے جلی مطلع کا حسن ختم کر دیتی ہے اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔

  • فلسفہ کا دخل

بسا اوقات شاعری میں فلسفے کا دخول بھی ہے جو کہ شاعر کی علمی و بصری استطاعت پر منحصر ہے۔ لیکن اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ کس حد تک اس سے استفادہ کیا جائے۔ فلسفے کا غیر ضروری اور بکثرت استععال شاعری کو ثقیل اور نا فہم بناتا ہے  اور شاعری کا حسن ماند کر دیتا ہے۔ لیکن کہیں انداز و بیان کا حسن فلسفے کو ایک خوبی کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس کی مثال جناب علامہ محمد اقبال کا کلام ہے۔

کولرج کا کہنا ہے کہ "شاعری کا سارا جادو اس کا تمام حسن اس کی تمام قوت اس فلسفیانہ اصول میں ہے، جسے ہم طریقہ کار کہتے ہیں”۔ اس بات سے یہ مطلب بھی اخذ ہوتا ہے کہ شاعری کے وزن، تخیل اور الفاظ کا چناو کا عمل فلسفیانہ اصول ہیں۔

  • وحدانیت

وحدانیت بھی شاعری کے محاسن میں سے ایک ہے۔خود شناسی اور self esteem انسان کی اپنی ذات کے علاوہ ذات خداوندی کی واحدانیت پر یقین پختہ کرتی ہے۔ خودی تک رسائی کائنات کے رموز تک رسائی ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 
خدا بندے سے خود پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا  (غالب)

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز 
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز 

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے 
تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے (اقبال)

  • اعراب و لغت کا لحاظ

The words that a poet uses to communicate are the manifestation of the poet’s mental and intellectual ability. And they help to define the status of his art poetry. Vocabulary ability increases with mastery of vocabulary and language.

        بعض شعرا ابلاغ کے لیے آسان پیرایہ اور چھوٹی اور آسان بحور میں بہت سادہ زمین میں اظہار کرنا پسند کرتے ہیں ۔بعض زیادہ تر مشکل الفاظ اور گنجلک زمینیں استعمال کرتے ہیں۔ اور بعض سمجھدار شعرا زبان و بیان پر عبور ہونے کے باوجود آسان پیرائے کی غزلیں اس لیے کہتے ہیں کہ ہر خاص وعام ان کی بات کو سمجھ سکے اور وہ ہر عام قاری کے دل میں بھی جگہ بنا سکیں۔ اس طرح کے شعرا جو زبان پر عبور ہوتے ہوئے جو کچھ آسان اور عام فہم میں لکھتے ہیں وہ زیادہ موثر اور اعلی پائے کا ہوتا ہے۔

It is also very important to be aware of Arabs. Ignorance of Arabs leads to high or low weight and tossing in the sea. Such as knowledge, age, news. Instead of reading "ilm”, if you read "ilm”, "umr”, "umr”, and "khabar”, then there will be a difference in the pronunciation and the weight of the poem. Will exclude from the list of poems. Therefore, it is better to refer to the dictionary for Arabic words.

            کچھ اجزاء اور اقدامات سے گریز کرنا یا جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ان کی موجودگی سے اور احتیاط نہ کرنے سے بھی شعر کا حسن متاثر ہوتا ہے۔ ان درج ذیل عیوب سے گریز کرنے سے شعر کا حسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔

  • تعقید لفظی سے ممکنہ گریز

تعقید لفظی یعنی لفظوں کا آگے پیچھے ہو جانا۔ الفاظ کی نشست میں بے ترتیبی ہونے کی وجہ سے مصرع یا شعر سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑے۔ مثلا

اے دل نہ جا زلفوں میں اس صنم کی 
ہر چین اس کی قید ہے ستم کی 

  • مبالغہ آمیزی سے گریز

In poetry, when the poet is eloquent in praising the beloved, he often exaggerates, but this exaggeration is also good to a certain extent, but if it exceeds the limit, the beauty of the poem begins to deteriorate.

شعر میں ایسی مبالغہ آمیزی سے گریز کرنا چاہیئے۔ جو کہ نہ تو قانل قبول ہوتی ہے اور نہ ہی جواز فراہم کرتی ہے۔ اس طرح شعر کی وقعت ہی کم نہیں ہوتی۔ شاعر کی اپنی حیثیت پر بھی فرق پڑتا ہے۔

  • نامانوس الفاظ سے گریز

نامانوس الفاظ سے گریز کرنا چاہیئے بسا اوقات ردیف کی کمی سے یہ قباحت پیدا ہوتی ہے کہ ایسے ہم آواز الفاظ استعمال کرنا پڑ جاتے ہیں جو کہ نامانوس اور عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے۔ایک آدھ ردیف کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن غزل یا نظم میں جگہ جگہ نامانوس اور مشکل فہم الفاظ کا استعمال کلام کے حسن کو ختم کر دیتا ہے۔ جب سمجھ ہی نہیں آئے گا تو لطف کیا خاک آئے گا۔ اس لیے کوشش کی جائے لغت کے متروک الفاظ اور گنجلک الفاظ سے گریز کیا جائے۔

  • عامیانہ پن سے گریز

عامیانہ پن شاعری کا حسن ختم کر دیتا ہے۔ فحاشی یا گھٹیا بازاری انداز شاعری کا معیار گرا دیتا ہے۔ تخیل اور گفتگو کا معیار اچھے یا برے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ ماحول اور صحبت کا اثر تخلیق کار کی ذہنی رو کا رخ بلندی یا پستی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اعلی معیار کی کتب کا مطالعہ اور اچھے لوگوں کی صحبت سے انسان کا مذاق بہتر ہوتا ہے۔ اور وہ عامیانہ اور گھٹیا الفاظ اور خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔

شاعری میں قابل گرفت الفاظ سے گریز کرنا چاہیئے۔ عریاں الفاظ یا ایسے الفاظ جو خود شاعر کی ذات کو نشانہ بنائیں اور اسے ایک منفی کردار یا فحش پسند بنائیں سے گریز کرنا چاہیئے۔ کبھی کبھی شاعر حضرات اور شاعرات ایسے اشعار کہہ بیٹھتے ہیں جو ان کی جنس یعنی مردو عورت ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لیسبین یا گے  کا ٹپہ بھی اشعار میں لاپرواہی کے سبب لگ سکتا ہے۔

  • مقطع سے اختتامیہ کا تاثر

          غزل کے آخری شعر یعنی مقطع سے غزل کا اختتامیہ ظاہر ہونا بھی خوبی اور حسن ہے۔ اگر مقطع سن کر لگے کہ بات ابھی ادھوری ہے تو یہ چیز غزل کے حسن کو متاثر کرتی ہے۔ یا مقطع بالکل بے رونق ہو اور بقیہ غزل جیسی دلچسپی برقرار رکھنے سے قاصر ہو تو یہ بھی شعر کے عیب میں گنا جاتا ہے۔

          شعر کا حسن برقرار رکھنے کے لیے جو عوامل درکار ہوتے ہیں اور جن عوامل سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کی طویل فہرست ہے لیکن میں نے چند زیادہ ضروری اور اہم محاسن کی یہ ایک فہرست تیار کی ہے۔ اور دوسرے شعرا اور نقاد کے خیالات بھی پیش کیے ہیں تاکہ شعراء صاحبان اور خاص کر نو آموز شعراء اس سے استفادہ حاصل کریں۔ دعاوں میں یاد رکھیں

ایک تبصرہ چھوڑیں