غزل
محبتوں کا عذاب میں نے غموں کی صورت چکا دیا ہے
نہ چھیڑ مجھ کو اے میرے دشمن کہ میں نے خود کو مٹا دیا ہے
ادائے دل میں گلوں کی خوشبو مہک رہی ہے عذاب بن کر
یہ دل کا سودا کیا ہے تو نے کہ دل کو مجنوں بنا دیا ہے
تڑپ کے میں نے جو تیری یادوں کا دل میں اپنے گلاب رکھا
نہ دل ہی مہکا نہ یہ چمن ہی جو یاد تھا سب بھلا دیا ہے
یہ ہجر اور یہ وصال دونوں تمھارے ہونے سے منسلک تھے
یہ پردہ پوشی جو درمیاں تھی حجاب کس نے اٹھا دیا ہے
کمال یہ تھا کہ جس کی خاطر زمانے والوں سے لڑ پڑی میں
اسی نے دامن کو چھید ڈالا اسی نے دل ورغلا دیا ہے
تمام وعدے وفا کریں گے یہ طے ہوا تھا سو اس لیے بھی
وفا کی رہ میں میں جھک گئی تھی چراغ دل کو بجھا دیا ہے
قدم قدم پر اذیتوں کے نشاں ملے تھے چہار جانب
میں سوئے مقتل چلی گئی تھی یہ کس نے قصہ سنا دیا ہے
میں راہ حق سے بھٹک گئی تھی نہ کوئی منزل تھی نہ نشاں تھا
دل شکستہ کی خیر جس نے چراغ شب کا جلا دیا ہے
عمودؔ سوئی رہی میں شب بھر عجیب ہلچل مچی ہوئی تھی
کہ قہر برپا ہوا تھا شب کو یہ خواب کس نے دکھا دیا ہے
عمود ابرار احمد