غزل
محبتوں کا چمن پائمال ہم نے کیا
خود اپنے آپ کا جینا محال ہم نے کیا
جو لذتیں ہیں دکھوں میں مسرتوں میں کہاں
ملا عروج تو اس کو زوال ہم نے کیا
نہ کار دل کے تھے لائق نہ کار دنیا کے
جو کچھ کیا تو غم ماہ و سال ہم نے کیا
ہزار درد کے موسم گزر گئے لیکن
کبھی دراز نہ دست سوال ہم نے کیا
یہ رمز عشق یہ نازک کنائے ہم نے سکھائے
نگاہ ناز تجھے بے مثال ہم نے کیا
دیے تراش لیے یاس کے اندھیروں سے
غم فراق کو خواب وصال ہم نے کیا
سخن سے رنگ گیا زندگی سے خواب گئے
یہ زخم ہجر کا کیوں اندمال ہم نے کیا
ہوئی ہے آج طبیعت سخن پہ پھر مائل
سو موج درد کو دل میں بحال ہم نے کیا
سید فراست رضوی