محبت دی تو ایسی کی محبت دی مقدر میں
مہ نو دیکھ کر دیکھی جو صورت آب خنجر میں
لہو کہتے ہیں جس کو وہ کہاں شیدائے مضطر میں
برنگ خوں چھلکتا ہے غم دل دیدۂ تر میں
ہوا کرتی ہے نفرت بھی نہ یہ نفرت قیامت کے
کہ سایہ مجھ سے رہتا ہے گریزاں کوئی دلبر میں
نہیں معلوم کس کس کا لہو خنجر نے چاٹا ہے
کہ ہر جوہر برنگ گل ہے موج آب خنجر میں
مسرت وصل کی کیا ہو جو گزرے باتوں باتوں میں
خیال شام فرقت میں پیام صبح خاور میں
گوارا کس کو ہو ساقی یہ بوئے غیر صہبا کے
کسی نے پی ہے ساغر میں جو بو ہے غیر ساغر میں
گئے پہلو سے تم کیا گھر میں ہنگامہ تھا محشر کا
چراغ صبح گاہی میں جمال شمع انور میں
مسرت دل کی کہتے ہے کہ منہ سے شمع محفل کے
برابر پھول جھڑتے ہیں کوئی آنے کو ہے گھر میں
ہمارے وصل کی شب بھی عجب تشویش میں گزری
تلاش وصل میں دل تھا نگاہیں صبح خاور میں
نہ تم ضد اپنی چھوڑو گے نہ ہم سے وضع چھوٹے گی
چلو بس ہو چکا ملنا نہیں ملنا مقدر میں
کچھ اس کے دل میں ذکر وصل ایسا چھپ کے بیٹھا ہے
وفا مضمر معانی میں معانی وقف مصدر میں
تقاضا سن کے کہتے ہیں یہ صورت ہے بلانے کی
کوئی منہ پہلے بنوائے بلائے پھر ہمیں گھر میں
ہوا ہے ذوق آرائش کا پھر اس حسن آرا کو
کوئی دے دے اٹھا کر آئینہ دست سکندر میں
اگر ہم تم سلامت ہیں کبھی کھل جائے گی قسمت
اسی دور لیالی میں اسی گردوں کے چکر میں
جلاتا ہے مجھے یہ ماہ سے مہتاب بن بن کر
گزرتی ہے قیامت مجھ پہ یاد روئے دل بر میں
ہمیں نسبت ہے جنت سے کہ ہم بھی نسل آدم ہیں
ہمارا حصہ راقمؔ ہے ارم میں حوض کوثر میں
راقم دہلوی