محبت میں کمی سی رہ گئی ہے
کہ بس اک بے بسی سی رہ گئی ہے
نہ جانے کیوں ہمارے درمیاں اب
فقط اک برہمی سی رہ گئی ہے
عجب یہ سانحہ گزرا ہے ہم پر
ترے غم کی خوشی سی رہ گئی ہے
سمندر کتنے آنکھوں میں اتارے
تو پھر کیوں تشنگی سی رہ گئی ہے
نہیں چڑھتا ہے اب یادوں کا دریا
مگر اک بیکلی سی رہ گئی ہے
خلش دل میں کوئی باقی ہے اب تک
کہ آنکھوں میں نمی سی رہ گئی ہے
وہی اک بات جو کہنی تھی تم سے
وہی تو ان کہی سی رہ گئی ہے
نزہت عباسی