محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
خوشبو دیے کی شام سے آگے نکل گئی
۔
غافل نہ جانئے مجھے مصروف جنگ ہوں
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
۔
تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی
۔
مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
۔
عاصمؔ وہ کوئی دوست نہیں تھا جو ٹھہرتا
دنیا تھی اپنے کام سے آگے نکل گئی
لیاقت علی عاصم