محفلِ دید کے آداب تو سنتے جائیں ۔
ان کا دیدار کریں اور سرکتے جائیں
جن کی مدہوش مزاجی کا بڑا چرچا ہے
وہ پلائیں تو سبھی لوگ سنبھلتے جائیں
بڑی مدت ہوئ اس شخص کو دیکھا نہ سنا
اس کے ہم شہر میں آئے ہیں تو ملتے جائیں
عین ممکن ہے یہاں فیضِ جنوں ہو جاری
عشق والوں سے ملاقات ہی کرتے جائیں
اک نہ اک روز تو اس شخص سے ملنا ہوگا
کب تلک چھپتے رہیں , رستے بدلتے جائیں
لوگ کہتے ہیں کہ لہجہ ہے قیامت اس کا
آو اس شخص سے کچھ شعر ہی سنتے جائیں
دن بدن شوقِ محبت کا اثر ہو ہم پر
دن بدن اور کِھلیں اور سنورتے جائیں
یہ بھی کیا کم ہے کہ مالک کی عطا سے دانش !!
ہم جو سوچیں وہی اشعار میں کہتے جائیں
دانش عزیز