غزل
محفل ہستی میں ہم فکر سخن کرتے رہے
کشمکش میں بھی خیال انجمن کرتے رہے
بارہا گل چیں نے للکارا ہمارے عزم کو
بے محابا ہم مگر نظم چمن کرتے رہے
میں تو سب کے چاک دامن پر رفو کرتا رہا
اہل دنیا چاک میرا پیرہن کرتے رہے
ہم وطن سمجھا کئے ننگ وطن ہم کو مگر
سرفروشی کچھ ہمیں بہر وطن کرتے رہے
ختم کب ہوتا ہے دیکھیں امتحاں کا سلسلہ
آج تک ہم عزت دار و رسن کرتے رہے
کیا کہوں اس دور نو کے رہبروں کا ماجرا
یہ بھی وہ کرتے رہے جو راہزن کرتے رہے
فرحت قادری