مرا نصیب یہ کہہ کر سمیٹ لایا تھا
میں آسماں سے مقدر سمیٹ لایا تھا
کسی کے حکم کی تعمیل میں یہ پورا دن
اٹھا کے آنکھ میں منظر سمیٹ لایا تھا
محاذ عشق پہ تنہا ہی میں تو کافی تھا
مگر وہ شخص تو لشکر سمیٹ لایا تھا
یہ لوگ بھوک سے افلاس سے بلکتے ہیں
میں شہر جاں سے وہ سب گھر سمیٹ لایا تھا
کوئی گھٹا نہ سکے گا مرا قدوقامت
میں سائبان کا دفتر سمیٹ لایا تھا
مجھے تو عشق میں بس ڈوب کے ابھرنا تھا
تو اس جہاں کے سمندر سمیٹ لایا تھا
یہ کار عشق ہے مرے وجود کا حصّہ
سو اپنے دل میں یہ نشتر سمیٹ لایا تھا
جہاں پہ چھوڑ کے آیا تھا تیرا نقشِ وفا
وہیں سے اب دل مضطر سمیٹ لایا تھا
حسن رضا