23/02/2025 18:09

مرزا اسد اللہ خاں غالب کا فن سخن

موج سخن تحقیقی ڈیسک

 

غالب کی سوانح

جس زمانے میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمار ہا تھا اور مشرقی تہذیب کا آفتاب غروب ہونے کو تھا اس وقت شعر و ادب کی دنیا میں چند شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب اس عہد کے سب سے نامور شاعر ہیں ۔ ان کے دم سے اردو شاعری کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا ۔ پر و فیسر آل احمد سرور کے قول کے مطابق ” غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی ، غالب نے اسے ذہن دیا ” انھوں نے غزل میں نئے موضوعات اور نئے مضامین داخل کر کے اس کا دامن وسیع کر دیا ۔ مرزا اسد اللہ خان نام اور غالب تخلص تھا ۔ 1796 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے

مشہور محقق مالک رام نے ” تذ کرہ ماہ و سال ” میں غالب کی تاریخ پیدائش 27 دسمبر 1797 ء بمطابق 8 رجب 1212 ھ لکھی ہے اور یوسف حسین خان بھی “ غالب اور آھنگ غالب ” میں ان کی تاریخ ولادت 27 دسمبر 1797 ء بتاتے ہیں ۔ جبکہ رام بابو سکینہ ” تاریخ ادب اردو میں مرزا کا سال ولادت 1796 ء قرار دیتے ہیں ۔ مرزا غالب کا خاندانی سلسلہ بقول رام بابو سکینہ ” ابیک تر کمانوں ، جو وسط ایشیا کے رہنے والے تھے ، سے ملتا ہے جو اپنے آپ کو سلاطین سلجوقی کی وساطت سے فریدوں کی نسل میں سمجھتے تھے ۔

 مرزا کے دادا سب سے پہلے ہندوستان آئے اور شاہ عالم بادشاہ کے دربار میں عزت پائی ۔ غالب کے والد عبداللہ بیگ خان نے ایک متلون زندگی بسر کی ۔ کچھ دنوں دربار اور ان میں رہے پھر حید رآ باد آ گے جہاں نواب نظام علی خان بہادر کی سرکار میں 300 سوار کی حمیت میں ملازم رہے ۔ کئی برس بعد گھر آۓ اور الور کے راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی اور یہاں کسی سرکش گھڑی کی لڑائی میں مارے گئے ۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بیان کے مطابق وہ راجگڑ ھ میں ہی دفن ہوئے جس کا ذکر بقول انکے غالب نے کیا ہے ۔ راجہ بختاور سنگھ نے عبد اللہ بیگ خان کے دونوں لڑکوں مرزا اسد اللہ خان غالب اور مرزا یوسف بیگ خان کے گزارے کے لیے روز یہ مقرر کر دیا اور دو گاؤں ان کے نام کر دیئے ۔

 مرزا عبداللہ بیگ کے انتقال کے وقت غالب کی عمر پانچ سال کی تھی۔ان کے چچا مر زا نصر اللہ بیگ نے جو لاولد تھے ، غالب اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کو اپنی سرپرستی میں لے لیا ۔ مرزا غالب ابھی صرف نو سال کے ہی تھے کہ ان کے چچا مر زا نصر اللہ بیگ کا بھی انتقال ہو گیا اور اب ان کے نانا خواجہ غلام حسین خان جو کہ فوج کے کمیدان اور آگرہ کے مشہور رئیس تھے ، کے یہاں مرزا غالب کی پرورش ہونے لگی ۔ مرزا غالب کے چچا چو نکہ انگریزی فوج میں رسالدار تھے ، اس لیے حسن خدمات اور وفاداری کے صلہ میں انگریزی سرکار سے جاگیر بھی پائی تھی اور ان کے انتقال کے بعد مرزا غالب کو انگریزی جاگیر کے عوض سر کار انگلیش سے پینشن بھی ملتی رہی ۔ مرزا کا بچپن بقول رام بابو سکینہ آگرہ میں گزرا جہاں وہ ایک کہنہ مشق استاد شیخ معظم علی سے تعلیم پاتے رہے اور کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی سے بھی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ۔ جب ان کی عمر 14 برس ہوئی تو مر مر نام کے ایک پارسی سے جو رند و پاژن کا عالم اور بڑا سیاح تھا ، سے فارسی پڑھی ۔ 

مرزا غالب کی شادی نواب ای بخش خان معروف کی بیٹی امرا ، بیگم کے ساتھ 1810 ء میں ہوئی جب مرزا کی عمر محض 13 سال کی تھی ۔ نواب الی بخش خان معروف چونکہ شاعر تھے لہذا مر زا غالب کو بھی اولی ماحول میسر آیا ۔ مرزا پہلے اسد تخلص کرتے تھے بعد کو غالب ہو گئے ۔ ان کا بچپن اور لڑکپن کا زمانہ عیش و آرام میں گزرا لیکن شادی کے بعد حالات دگرگوں ہو گئے ۔ غالب حالات سے مجبور ہو کر دلی منتقل ہو گئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ دلی کی فضا میں بقول رام بابوسکینہ ” شاعری گونج رہی تھی ، جگہ جگہ مشاعرے ہور ہے تھے ، شادی بھی ایک مشہور و معروف شاعر کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تھی ۔ ان سب اسباب سے نو عمر غالب کی نوخیز طبیعت پر شاعری کا گہرا اثرہوا؛ مرزا غالب ہمیشہ دہلی میں ہی رہے سوائے ایک کلکتہ کے سفر کے جو انھوں نے 1828 ء میں کیا تھا ، یہ سفر پنشن کی بحالی کی خاطر تھا ، وہ پنشن جو ان کو سر کار انگلش کی جانب سے پچامر زا نصر اللہ بیگ کی جاگیر کی ضبطی کے عوض میں ملتی تھی ۔ یہ پیشن گو کہ بحال تو نہ ہوئی تاہم مرزانے مختلف علاقوں کی سیر کر لی ۔

 بقول رام بابو سکینہ ” کلکتہ کے راستے میں مرزا نے لکھنو اور بنارس کی بھی سیر کی تھی اور ایک قصیدہ نصیر الدین حیدر شاہ بادشاہ اودھ کے واسطے اور ایک نثر وزیر سلطنت کی مدح میں پیش کی تھی ۔ آخری تاجدار خود واجد علی شاہ کی سرکار سے بھی 500 روپیہ سالانہ ان کے واسطے مقرر ہوئے تھے مگر دو برس کے بعد جب سلطنت کا تنازعہ پیدا ہوا تو وہ موقوف ہو گئے ۔ پنشن کے مقدمے سے غالب کی ذہنی کوفت کے علاوہ بقول یوسف حسین خان ایک اور واقع ایسا پیش آیا جس کی وجہ سے انہیں بے آبروئی کا گھاؤ کھانا پڑا جو تھوڑی بہت عزت باقی تھی وہ بھی جاتی رہی ۔ غالب کو جوانی کے زمانے میں شطر نج کھیلنے کا بڑا شوق تھا ۔ کچھ بدک کر کھیلا کرتے تھے ۔ آہستہ آہستہ اس عادت نے جوا کھیلنے کی لت لگادی ۔ شراب اور جوئے کا ساتھ دنیا کی ہر تہذیب میں قدیم سے پایا جاتا ہے ۔

 1841 ء میں جوئے کی علت میں انہیں سوروپے جرمانے کی سزا ہو چکی تھی اس کے بعد بھی یہ ان کا مشغلہ جاری رہا ۔ جب تک محمد مر زاخانی کوتوال شہر تھے ، مرزا کو کوئی خطرہ بابت کھیلنے جوۓ کے نہ تھا لیکن جب محمد مر زا خانی کی جگہ فیض الحسن تبد میں کوتوال ہو کر آۓ تو نئے کوتوال شہر نے جوئے کی انسداد کے لیے سخت کارروائی عمل میں لائی ۔ چناچہ مرزا غالب کو جنوں نے اپنے گھر کو جوا کھیلنے کا اڈا بنا رکھا تھا ، گرفتار کر لیا گیا اور عدالت فوجداری سے انہیں کچھ ماہ قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانہ کی سزا ہو گی “ کہا جاتا ہے کہ اس عرصے میں صرف نواب مصطفی خان شیفتہ ہی ان کی خبر گیری کرتے رہے ۔

 1842 ء میں غالب کو دہلی کالج میں پروفیسر کے لیے منتخب کیا گیا مگر چونکہ ٹامسن صاحب جو کہ اس وقت سیکر ٹری گورنمنٹ تھے ، غالب کے استقبال کے لیے نہیں آیئے اس لیے انھوں نے ملازمت قبول نہ کی ۔ بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے انکو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا اور مزید یہ کہ ان کو 50 روپے مہینہ کے صلہ 1849 میں تاریخ خاندان تیمور یہ لکھنے کا بھی حکم دیا ۔ 1854 ء میں شیخ ابراہیم ذوق کے انتقال پر غالب بادشاہ حضور کے استاد مقرر ہوۓ ۔

 رام بابو سکینہ کے بقول ” غدر کے ایام میں بسلسلہ ملازمت اور تقریب شاہی کی مرزا بھی مصائب میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ پیشن بند ہو گئی اور ان کے چال چلن کے متعلق تحقیقات کی جانے لگی اور آخر میں جب پوری صفائی ہو گئی اور یہ بے گناہ ثابت ہوئے تو ان کی پنشن بحال ہوئی اور عزت سابقہ بھی واپس دی گئی ۔ غالب نواب یوسف علی خاں والی را مپور کے استاد بھی تھے جو ان کو سو روپے ماہوار بطور پنشن کے عمر بھر دیتے رہے ۔ غالب کا انتقال 15 فروری 1869 ء کو 72 برس چار ماہ بمقام دبلی ہوا اور وہیں دفن ہوئے ۔

غالب کی قصیدہ گوئی

 غالب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر انھیں عبور حاصل تھا ۔ غالب نے دوز بانوں ، اردو اور فارسی کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ۔ انہوں نے نثر و نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ۔ غزل کے علاوہ قصیدہ ، رباعی اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی ۔ ابتدائی شعر گوئی سے لے کر عمر کے آخری حصے تک انہوں نے بہت سے قصیدے لکھے ۔ اردو میں کم اور فارسی میں زیادہ ۔ ان کے اردو قصائد کی تعداد صرف چار ہے ۔

 غالب کے دیوان کا پہلا قصیدہ ” ساز یک ذرہ نہیں فیض جان سے بیکار ” ۔ منقبت میں ہے اور اس کی تشبیب میں بہار کی کوئی زندہ تصویر بنتی نظر نہیں آتی ۔ دوسرا قصیدہ ” دمر جڑ جلوہ یکتائی معشوق نہیں ہے ۔ یہ قصیدہ حضرت علی کی شان میں ہے ۔ یہ پہلے قصیدے سے زیادہ پر اثر ہے ۔ اس قصیدے کی تکبیب متصوفانہ ہے ۔ قصیدے کے دس اشعار میں فلسفہ وحدت الوجود کی تائید اور کثرت کی نفی کرتے ہوئے رونق دنیا سے دامن بچانے کی ترکیب کی گئی ہے ۔ یہاں پہنچ کر شاعر کو اچانک خیال آتا ہے کہ اسے کیا لکھنا تھا وہ کس مخمصے میں الجھ کر رہ گیا ہے وہ خود کو مدح کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ گریز کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔

 کس قدر مرزہ سرا ہوں کہ عیاذ باللہ یک
 قلم خارج آداب و قار و تمکیں 
اس کے بعد مدح کی طرف آتے ہیں
 کس سے ہو سکتی ہے مذاحی مدوج خدا
 کس سے ہو سکتی آرائش فردوس بریں

 اس کے بعد قصید ودعائیہ اشعار پر ختم ہوتا ہے ۔ یہ قصیدہ پہلے قصیدے کی مقابلے میں زیادہ صاف اور رواں ہے ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس قصید ے کی تصنیف کے وقت شاعر کو الفاظ اور ترکیب پر حاکمانہ قدرت حاصل ہو چکی تھی اور بات کہنے کا اندازہ زیادہ پر اثر ہو گیا تھا ۔ زبان میں بھی نسبتا سادگی آ چکی تھی ۔ ان دو قصیدوں کے ساتھ غالب کی قصیدہ گوئی کے دور اول کا خاتمہ ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے پرانے کلام کو رد کر دیا اور ابہام اور پیچیدگی سے پر ہیز کرنے لگے لیکن قصیدے کی طرف توجہ نہیں کی ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان ذوق پر قبضہ کرنا تھا ۔

 ذوق کی وفات کے بعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام کی اصلاح کا کام غالب کو سونپا ۔ چنانچہ غالب نے اپنا تیسرا قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں تحریر کیا ۔ ” ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام ” مہر لحاظ سے ایک قابل توجہ قصیدہ ہے ۔ قصیدہ میں محبیب کی حیثیت تمہید کی ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قاری کی توجہ فورا گرفت میں لے لے ۔ اس قصیدے کی تشبیب اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے ۔ ہلال عید کے خمیده چاند کو دیکھ کر شاعر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس کے سامنے تسلیم خم کر رہا ہے ۔

 ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام 
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

چناچہ غالب سوال کرتے ہیں کہ اے چاند ! تیری کمر میں خم کیوں ہے ؟ وہ کون ہے جس کو تو سلام کر رہا ہے ؟ اس قصیدے میں غالب اپنا ایک الگ رنگ نکالے نظر آتے ہیں یہاں نہ ان کی پرانی مشکل کوئی نظر آتی ہے اور نہ پیچیدہ انداز بیان ۔ اس قصیدے میں ایک تازگی ہے اور کہیں کہیں لب و لہجہ بول چال کا ہے ۔ الفاظ کی ترتیب اور لب و لہجے کی بے ساختگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی باتیں کر رہا ہے اور پھر مکالمے کی شان پیدا ہوتی ہے ۔ غالب کا چو تھا اور آخری قصیدہ بھی دوسرے قصیدے کا ہم پلہ ہے ۔ تحسیب بھی دلکش ہے ۔ غالب کا تخیل صبح کے سورج کو بارہ گل سنگ کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ 

صبح دم دروازه خاور کھلا
 میر عالم تاب کا منظر کھلا

 یہ مختصر قصیدہ اس دعا پر ختم ہوتا ہے کہ جب تک روز و شب کا طلسم برقرار ہے اس وقت تک اس حکمران کی حکمرانی باقی ہے ۔ مختصر یہ کہ غالب ہر میدان میں اپنا راستہ آپ نکالتے تھے ۔ قصیدہ نگاری میں بھی اپنی طرز خاص کے خود ہی موجد اور خود ہی خاتم ہیں ۔ ان کی تحبیب دل آویز گریز فطری اور پر کشش ہوتی ہے ۔ مدح گوئی میں وہ زمین آسمان کے قلابے نہیں ملاتے لیکن ان کی مدح کسی حد تک حقیقت کے قریب ہوتی ہے اور اس لیے زیادہ پر اثر ہوتی ہے اور ان کے قصائد کے دعائیہ حصے تو آج تک زبان زد خلائق ہے ۔۔

غالب کا تصور حسن و عشق

 اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حسن و عشق کے تجربات کا اظہار رہا ہے ۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا لازمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی طور پر در آئے ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پتلی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موجودگی میں غزل کا پیکر بالکل بے جان اور حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا عشق کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھند لا یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے ۔

 فنون لطیفہ سے متعلق ہر عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے ۔ غالب ایک ایسے ہی سخنور ہیں جن کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات اور مختلف حالات میں نفسیاتی رد عمل کا جمالیاتی اظہار پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے ۔ غالب کے غزل میں عشق کا تصور کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ سرا ملتے ہیں ۔ 

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
 درد کی دوا پائی درد لادوا پایا

 اور پھر جوں جوں آپ ورق پلتے جائیں ، آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک عشق کے بن عمر کٹ ہی نہیں سکتی ۔ وہ اسی عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں ۔ وہ عشق کے آلام سے گھبرا کر سو بار قیدِ عشق سے آزاد ہونے کی کو شش کرتے ہیں ۔ مگر کہاں ؟ اند وہ عشق کی کشتمش تو جاہی نہیں سکتی ۔دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر وہ اک بت کافر کا پو جنا نہیں چھوڑتے ۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال ابھر تا ہے کہ کیا عشق کوئی شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عشق اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے ۔ تو کیا عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات غالب کی غزل میں موجود ہیں ۔غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے ، مثالی یاماورائی نہیں ۔ ان کے نزدیک عشق ایک ایسی آگ ہے جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چاہیں تو ہمارے اختیار میں نہیں ۔ عشق ایک ایسی کیفیت ہے جس میں خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے ۔ عشق زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک جزو ہے ۔ یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کر تا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے ۔ اس لیے مختلف حالات میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا ردِ عمل مختلف ہوتا ہے ۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو اپنی گردن پر مشتق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو عالم کا خون اپنی گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ 

کبھی یہ کہہ کر جان صاف بچالے جاتے ہیں کہ میں زہر کھا تو لوں مگر ملتا ہی نہیں ۔ کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری پیکر ان سے کھلا اور کبھی محبوب کے عمر بھر کے پیان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار ہے ۔ کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے باوجود ترکِ وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی

 دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں 
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

 رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اور یہ آلام عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔

تری وفا سے ہو کیا تسلی کہ دہر میں 
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

 غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیکر ہی نہیں بلکہ نواز ش ہاۓ بے جا بھی فرماتا ہے ۔ اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامبر بان بھی نہیں ۔ ضد کی بات اور ہے مگر وہ سینکڑوں وعدے بھی وفا کر چکا ہے ۔ غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہرے کا رنگ بھی غالب کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے ۔ وہ غالب کو اپنی زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی : آتا ہے ۔ غالب کا محبوب ان کی طرح ہنگامہ آرا ہے ۔ رسوائی کی نعمت صرف عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی ۔

 ہے وصل ، ہجر عالم تسکین وضبط میں
 معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے

 غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں ۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک ا نا اور خود داری ہے ۔ اگر محبوب بزم میں بلانے کا تکلف گوارا نہیں کر تا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں ۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑ تا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں ۔ وہ محبوب سے سر گرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں تک کہ در کعبہ بھی اگروانہ ہو تو الئے پھر آتے ہیں بندگی میں بھی وہ آزاد و خودمختار ہیں کہ ہم الٹے پھر آۓ در کعبہ اگروانہ ہوا غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں اس بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھتا ہے ۔ وہ عشق میں خود سپردگی کی بجاۓ برابری کے خواہش مند ہیں ۔

 وہ جب محبوب مہربان ہو کے بلاۓ تو ضرور آتے ہیں کیونکہ وہ گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں ۔ اور پھر کل تک اس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا ۔ برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروباری ذہنیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پر قائم ہے بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں ۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس لیے زنجیروں سے گھبراتے نہیں ۔ محبوب کو وہ ایمان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔ وہ محبوب کے راز کو رسوا نہیں کرتے ۔ وہ محبوب سے تعلق توڑ نا نہیں چاہتے ۔ خواہ عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم رہنا چاہیے ۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل تصویر ہے ۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑ نا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑ نا ہو تو پھر کسی سنگ دل کا/؎

 غالب ہلاک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محبوب کے پاؤں کا بوسہ نہیں لیتے کہ ایسی باتوں سے اس کے بد گماں ہو جانے کا خدشہ ہے ۔ کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے دو راہ پر نہیں آتا تو وہ اس کے دامن کو حریفانہ کھینچے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں ۔ جوا با محبوب بھی دھول دھپا کر نے لگتا ہے غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے باکی کی اجازت دے دے ۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو : جب کرم رخصت بے باکی و گستاخی دے کوئی تقصیر بجز

 غالب کی غزل میں عشق کی مثاث کے تیسرے زاویے لینی رقیب کے متعلق اشعار کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے ۔ غالب کے ہاں رقیب کے روایتی کردار کے خد و خال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب کا رویہ بڑا نرم اور لچک دار ہے ۔ برا بھلا کہنے اور اسے کونے کی بجاۓ وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں ۔ جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے ۔ اس میں مومن و کافر اور نیک وید کی تمیز نہیں ۔ نامہ پر رقیب ہو گیا تو اسے برا بھلا کہنے کی بجاۓ فرمایا :

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین

ایک طوائف کا خط

کرشن چندر مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ