loader image

MOJ E SUKHAN

مرزا اسد اللہ خاں غالب کا فن سخن

 تجھ سے تو کچھ کلام نہیں ہاں مگر ندیم
 میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

 یعنی اسے سلام بجھوا ر ہے ہیں ۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ پر رہا ہے ۔ دیا ہے دل اگر اس کو ، بشر ہے کیا کہیے ؟ ہوا رقیب تو ہو ، نامہ بر ہے کیا کہیے ؟ بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں ۔ اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں ۔ اس طرح دونوں دل کا رستہ بھی جوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی ۔ تا کرے نہ غمازی ، کر لیا ہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ، ہم نے ہم زباں اپنا البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیبوں کے مقابلے میں سر گرم نظر آتے ہیں ۔ انہیں بوالہوس کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اہل نظر ۔ عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں ۔ فروغ شعلہ حس یک نفس ہے ہوس کو پاس ناموس و فا کیا ؟ محبوب مہربان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتاتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا تو محبوب کو مائل بہ کرم رکھنے کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں ۔ 

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
 بہر حال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے ۔ تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو ؟ موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے ۔ شب وصل غیر بھی کائی تو ہمیں آزمائے گا کب تک ؟

غالب کا عشق بازاری نہیں ۔ وہ تو عشرت کہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کے عشق میں نیک نامی تسلیم ہی نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طفر و استہزا سے کام لیتے ہیں ۔ ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگار ہے ۔ وہ غم دنیا کو غم یار میں شامل نہیں کرتے ۔ غم ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہو تا ، غم روزگار ہو تا ۔ محبوب کے خیال سے غافل نہیں مگر میں ستم ہائے روز گار ضرور ہیں ۔ 

ان غم وآلام کی تلافی محبوب کی وفا سے نہیں ہوتی ۔ اور غم زمانہ نشاط عشق کی ساری مستی اجاڑ دیتا ہے ۔ غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے لا کھڑا کرنے والا پہلا شخص ہے ۔ بعد میں اس رجحان نے بڑی قوت حاصل کی ۔ عشق بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں ۔ عشق کا ایک تقاضا حوصلہ و استقامت بھی ہے ۔

 غالب نہ صرف حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں ایک طرح کی اذیت پسندی تک کا رجحان ملتا ہے ۔ محبوب تن عاشق کو مجروح کر کے جانے لگتا ہے تو ان کا دل زخم اور اعضا نمک کا تقاضا کرتے ہیں ۔ تمنا بے تاب ہے مگر جانتے ہیں کہ عاشقی صبر طلب ہے ۔ سوز غم چھپانے کی حکمت مشکل ہے ۔ انہوں نے دل دیا تو نوا سنج فغاں نہیں ہوۓ ۔ واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز مگر تاب لائے ہی بنے گی غالب و تیغ و کفن باندھے محبوب کے پاس جاتے ہیں کہ قتل کرنے میں عذر باقی نہ رہے ۔ بیداد عشق سے نہیں ڈرتے ہاں کبھی کبھی سیاست در باں سے ڈر جاتے ہیں ۔

 وہ محبوب کو بار بار دعوت قتل دیتے ہیں ۔ غرض عشق کے ہر امتحان میں ثابت قدم ہیں ۔ غالب عشق میں جان دینے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ان کے اشعار میں ان کی ظرافت بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور اپنی جان صاف بچالے جانے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں ۔ میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے جاں نذر و نہی بھول گیا اضطراب میں ر از معشوق نہ رسوا ہو جائے ور نہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کھا بھی نہ سکوں مندرجہ بالا تینوں اشعار میں عشق میں پامردی پر بھی حرف نہیں آنے دیتے اور جان صاف بچالے جاتے ہیں ۔ غالب بھی اپنے آپ پر بنتے ہیں کہ صورت دیکھو جو خوب رویوں پر مر رہے ہو اور بھی حاصل عشق جز شکست آرزو ہونے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ تاہم وہ عشق کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہیں ۔ ہر شخص کی طرح ان کی بھی خواہش ہے ۔ کاش کہ تم مرے لیے ہوتے۔

غالب کا عشق ماورائی نہیں زمینی ہے ۔ لہذا ان کا عشق بھی اسی مرکزی نقطے کے گرد طواف کرتا ہے ۔ ان کے عشق کا تانا بانا خواہشات کی انہی تاروں سے تیار ہوتا ہے ۔ غالب کے عشقیہ اشعار پڑھتے ہوۓ نہ تو ہماراول تھٹن سے تنگ ہوتا ہے اور نہ مومن و داغ کے عشقیہ اشعار کے مطالعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نا ہنجار مسرت سے سپار ہوتا ہے ۔ بلکہ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ایک ہم جیسا انسان ہمارے جیسے جذبات ہی کا اظہار کر رہا ہے اور دراصل یہی غالب کی زندہ و محرک قوت ہے جو اسے ہر دور میں زندہ و پائندہ رکھے گی ۔

غالب کی مشکل پسندی

 شمار سجه مرغوب بت مشکل پسند آیا
 تماشائ بہ یک کف برون صد دل پسند آیا

 غالب کے بارے میں ذوق نے کہا تھا کہ مرزانوشہ کو اپنے اچھے اشعار کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔ بات تقریبا صیح ہے ، لیکن غالب کو اپنے ضمیر کی پوری خبر تھی ۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے ضمیر کو پوشیدہ رکھنے کا فن بھی خوب آتا تھا ۔ چنانچہ انھوں نے بار بار یہ بات کہی کہ ان کے دور اول کے اشعار ( جو پیچید گی فکر اور نازک خیالی اور استعاروں کے اعلی نمونے ہیں ۔ ) بیدل اور شوکت اور اسیر کی تقلید میں تھے اور تقریبا بے معنی بھی تھے ۔ عبد الرزاق شاکر کو لکھتے ہیں کہ ، ” جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا ۔ اوراق یک قلم چاک کیے ۔ دس پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیے ۔

 ” نواب شمس الامراء کو لکھا کہ پچھلے دیوان کو انھوں نے گل دستہ طاق نسیاں ‘ ‘ کر ڈالا ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دیوان کے بھی سیکڑوں شعر اپنے اشکال کے باعث مسترد شده دیوان سے کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ لیکن انتخاب واصلاح کی اس تشہیر کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک طرف تو لوگوں کو خیال ہوا کہ مرزا نوشہ نے طرز سخن عام کی پیروی کو آخر کار مستحسن سمجھا اور دوسری طرف یہ محسوس ہوا کہ جب منظور شدہ دیوان میں مشکل شعروں کا یہ رنگ ہے تو مسترد کر وہ دیوان کا کیا عالم ہو گا ۔

 چنانچہ ایک طرف تو یہ افواہ گرم ہوئی کہ غالب جو خود اپنے قول کے بموجب ایام جوانی میں بہت کچھ سہتے رہے تھے ، آخر سادگی اور سلامت کو پیچیدگی اور معنی آفرینی پر ترجیح دینے ہی لگے ۔ اور دوسری طرف یہ رائے عام ہوئی کہ غالب بہت مشکل پسند شاعر تھے اور طرز کے آخری اور شاید سب سے بہتر نمائندہ تھے ۔ ایک ہی تیر سے دو شکار اور وہ بھی ایسے کہ ان کی سمتوں میں بعد المشرقین ہو ، غالب کی ذہانت اور محال پسندی کا اچھا نمونہ ہے ۔ لیکن مسترد شده دیوان اگر واقعی خیال گوئی پر مبنی ہے تو معنی آفرینی پر یہ بار بار اصرار کیوں ؟ اس بات پر ضد کیوں کہ مولوی صاحب کیا لطیف معنی ہیں ! ” یہ دعوی کیوں کہ ” شعر میرا مہمل نہیں ، اس سے زیادہ کیا لکھوں ۔ ” اس بات پر مباہات کیوں کہ ” جملے کے جملے مقدر چھوڑ گیا ہوں ؟ ” یہ شکایت کیوں کہ ” بھائی ! مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو شامل رہا ۔ 

یہ جملے منظور شدہ اشعار کے بارے میں ہیں ۔ اگر صفائی اور واشگافی ہی بہت بڑا ہنر تھا تو ان جملوں کا محل نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب شروع سے آخر تک ایک ہی طرز کے پیرو رہے ۔ ان کا ارتقا خوب سے خوب تر کی طرف ہوا ، لیکن یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے غیر عام اور محاورے سے خارج الفاظ کا بوجھ ، جو انھوں نے اپنے اردو کلام میں محض اس وجہ سے رکھا تھا کہ ان کے باپ دادا کی زبان اردو نہ تھی اور انھیں مروجہ اردو محاورے پر مکمل دست رسی نہ تھی ۔ اردو کے محاورے سے نیم مزاوات کی وجہ سے کم ہو تا گیا ، ورنہ جہاں تک سوال اشعار کے مشکل ہونے کا ہے ، ان کا دیوان سراپا اشکال ہے ، کیونکہ ان کی مابہ الامتیاز خصوصیت ذہن کی ایک ایسی روش ہے جو بہ یک وقت کئی تجربات کا احاطہ کر لیتی ہے اور ان تمام تجربات کا بہ یک وقت اظہار کرنے پر قادر ہے ۔

میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے غالب کے کلام کے ساتھ ” مشکل ” کی صفت عام معنوں میں استعمال کی ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کو اشکال سے کہیں زیادہ بلند منصب کی چیز سمجھتا ہوں ۔ میری نظر میں اشکال عموما شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن۔یہ ایک قطعی صورت حال کا نتیجہ ہوتا ہے ، ابہام کی بنیادی خصوصیت کیا ہوتی ہے ، جسے حل کر کے مافی الضمیر تک پہنچ سکتے ہیں ۔

 ابہام ایک ایسا معمہ ہے جو Code غیر قطعیت ہے ۔ اشکال کی نوعیت میں ہر طرف اشارے ہی اشارے ہیں اور ہر اشارہ صحیح ہوتا ہے ۔اشکال صرف ایک سطح کو پہچانتا ہے ، ابہام بہ یک وقت مختلف سطحوں پر حاوی ہو تا ہے اور اس ذہن کی خصوصیت ہوتا ہے جو مختلف المعنی یا مختلف الکیفیت حقائق کو ایک ساتھ ظاہر کر سکے ۔ چونکہ غالب ابہام اور اشکال کے اس لطیف فرق سے ناواقف تھے ، اس لیے انھوں نے اپنے ابہام کو بھی اشکال ہی سے تعبیر کیا ہے ، لیکن وہ ابہام کی حقیقت سے فی نفسہ واقف تھے کیونکہ انھوں نے اشکال کی جو تعریف کی ہے وہ دراصل ابہام ہی پر پوری اترتی ہے ۔

 ابہام کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ شعر ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ معنی رکھتا ہو ۔ اشکال کا تقاضا ہے کہ شعر کے معنی اس کو معلوم ہوں جو اس کے معمے کو حل کر سکے اور جب وہ معنی کھل جائیں تو وہ قطعی اور آخری مظہر ہیں ۔ ممکن ہے کہ کوئی شعر میرے لیے مشکل ہو ( کیونکہ میں اس کے الفاظ کے معنی نہیں جاننا یا محاورے سے بے خبر ہوں یا اس میں صرف کی ہوئی تلمیح تک میری نظر نہیں ہے ۔ لیکن دوسروں کے لیے آسان ہو ۔ مندرجہ ذیل مثالیں دیکھیے ۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکر تصویر کا پھر مجھے دیدہِ تر یاد آیا دل جگر تشنه فر یاد آیا ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق لرزے ہے موج سے تری رفتار دیکھ کر اس بات سے قطع نظر کہ پہلے شعر میں کچھ ابہام بھی ہے ، شعر کا اشکال اس کی تالیج میں مضمر ہے ۔

 اگر تلمیح صاف ہو جائے تو ظاہری معنی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ دوسرے شعر میں ” جگر تشنہ ” کے صحیح معنی ( بہت پیاسا ) معلوم ہوں تو بات صاف ہو جاتی ہے ۔ تیسرے شعر میں معمائی کیفیت ہے جس کا اشارہ معشوق کی مست رفتاری ہے ، لہذا ان اشعار کا مشکل خمیر ان اشعار پر نہیں بلکہ پڑھنے والے کی ذہنی اور علمی استعداد پر منحصر ہے یا پھر اس کے ذہن کی ساخت پر ۔ بعض لوگ معمہ جلد حل کر لیتے ہیں لیکن دوسرے معاملات میں معمولی ذہن کے مالک ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ معمے حل کرنے میں احمق ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی ذہانت مسلم ہوتی ہے ۔ مشکل شعروں  کی کچھ اور مثالیں دیکھیے : مگس کو باغ میں جانے نہ دیتا کہ ناحق خون پر وانے کا ہو گا نہ بٹھا حلقہ ماتم میں گرفتاروں کو نیل گوں خط توبه گرد خط رخسار نہ کھینچ کیا کہوں بیماری غم کی فراعنت کا بیاں جو کہ کھا یا خون دل بے منت کیموس تھا اس قسم کے اشکال کی مثالیں قصیدے اور مرثیے میں قدم قدم پر ملتی ہیں ۔ خود غالب کے قصیدے ایسے شعروں سے بھرے پڑے ہیں جن کا مفہوم سمجھنے کے لیے محاورے اور اصطلاح کا علم ہونا ضروری ہے ۔ لیکن یہ سطحی اور خارجی اشکال محض غالب کا طرہ امتیاز نہیں ، مومن کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں یہی کیفیت ملتی ہے ۔

 غالب کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنی مشکل گوئی ترک گردی ، گویا یہ کہنا کہ انھوں نے فطرت بدل دی ۔ چونکہ غالب کے کلام کی اساس جذبے سے زیادہ تجربے اور جذباتیت سے زیادہ عقلیت پر ہے ، اس لیے انھیں وہ پیچیدگیاں بھی عزیز تھیں جو شعر میں ظاہر کیے ہوئے تجربے کو لفظی صنعتوں کے ذریعے ایک ایسی کیفیت بخش دیتی ہیں جو پڑھنے والے کے رد عمل کو مختلف راہیں تلاش کرنے میں معاون ہوتی ہے ۔ 

قاری سمجھتا ہے کہ شعر کا متن وہ نہیں ہے جس کی طرف اس کا ذہن منتقل ہو رہا ہے ، لیکن مفہوم کے واضح ہوتے ہوئے بھی وہ نسبتا غیر متعلق رو عمل جو ذہن میں پیدا ہورہے ہیں ، شعر کے لطف کو دو بالا کر رہے ہیں ، اس لیے وہ ان غیر متعلق رد عمل کو بھی اپنے محسوسات میں در آنے دیتا ہے ۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ غالب اس لیے مشکل گو تھے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان کی فطرت میں منفرد ہونے کا تقاضا شدت سے ودیعت ہوا تھا ۔ اس لیے انھوں نے خود کو دوسروں سے مختلف و ممتاز کر نے کے لیے ایسی راہ اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے مروجہ اسلوب کے بر خلاف ایک پیچیدہ اسلوب اختیار کیا ۔ 

محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائی گئی ہے ، کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ غالب نے مختلف ہونے کے لیے پیچیدہ اسلوب ہی کیوں اختیار کیا ؟ میر کا دیوان ” کم از گلشن کشمیر نہیں تھا ، لیکن غالب کے ہم عصر میر کو صرف اوپری دل سے خراج دیتے تھے ۔ نہ ذوق کا اسلوب میر سے مستعار تھا ، نہ مومن کا ، نہ ناسخ کا ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غالب کا زمانہ آتے آتے لوگ میر کو بھول چکے تھے ۔ شعر کی ہیت تبدیل کرنے میں میر کا سب سے بڑا کارنامہ ہندی بحروں کو اردو کے سانچے میں ڈھالنا لو گ اس درجہ فراموش کر چکے تھے کہ اس عہد کے صد ہا غزل گو شعراء نے بھول کر بھی ان بحور میں غزل نہیں کہی ۔

 ( غالب نے البتہ ” کام تمام کیا "مختلف زمینوں میں اپنے خاص رنگ کے شعر کہے ہیں ۔ میر کے لیے اپنائیت اور احساس ہم جلیسی میں اس درجہ متروک ہو چکے تھے کہ پہلوان سخن کی بے کیف مضمون آرائیاں اور انشا کے خم ٹھونکنے کے انداز اور مومن کی زنانہ نازک خیالیاں اور ذوق کے اخلاقی مضامین ، سب مروج تھے ، مگر میر کا کہیں پتہ نہ تھا ۔ مصحفی جو اپنے دہلوی ہونے پر فخر کرتے رہے ، میر کے اصل مقبوضہ علاقے میں در آنے سے ہمیشہ کتراتے رہے ۔ آتش اپنی قلندرانہ رعونت کے باوجود ( جو میر کے مزاج سے مشابہ ہے ) لفظی اور جسمانی بازی گری کے والی وشیدار ہے ۔ ایسے عالم میں غالب کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ میر کی طرح کے شعر کہتے اور محض طر ز میر کا لقب حاصل کر کے نام کماتے ۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ دہلی کے متعین اور محفوظ لہجے کو ترک کر کے اپنے استاد نظیر اکبر آبادی کی ارضیت اور جسمیت پر توجہ کی جاتی ۔

 غالب یہ بھی نہ کر سکے ۔ تیسری صورت یہ تھی کہ جرات کی چوما چاٹی میں طنز و مزاح کی آمیزش کر کے اس کی چال ڈھال میں وقار اور اس طرز گفتار میں معنویت پیدا کی جاتی ۔ غالب اس سے بھی معذور ہے ۔ اللذا یہ بات مسلم ہے کہ غالب نے جان بوجھ کر ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو اس وقت مقبول نہیں تھا اور آج بھی بہت حد تک نامقبول ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسا انھوں نے اس وجہ سے کیا کہ انھیں پابستگی رسم و رواج عام گوارا نہ تھی ۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ انھوں نے بہت سے اسالیب میں وہی ایک اسلوب کیوں اختیار کیا جو اردو شاعری کی روایت سے تقریبا منافی تھا ؟ منفر د ہونے کے اور بھی طریقے تھے ۔

 یہی ایک طریقہ کیوں ؟ اگر یہ کہا جاۓ کہ انھوں نے یہ طرز تقلید بیدل میں اختیار کیا اور وہ اس وجہ سے کہ غالب فارسی شاعری کی روایت کے پروردہ تھے اور بیدل ایک فارسی شاعر تھے ، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر بیدل ہی کیوں ؟ حافظ و سعدی و نظیری کیوں نہیں ؟ غالب کے یہاں تصوف عالیہ کے اثرات پائے جاتے ہیں لہذا عراقی و عطار کیوں نہیں ؟ خسرو کے وہ بڑے معتقد تھے ، لہذا خسرو کیوں نہیں ؟ ہندوستانی فارسی گویوں میں فیضی ممتاز تھا ، لہذا مکتب فیضی کیوں نہ اختیار کیا ؟ ان سوالات کا شافی جواب ایک ہی ممکن ہے اور وہ بھی بہت شافی نہیں ہے یعنی غالب اپنی فطرت سے مجبور تھے ۔

 ان کے مزاج کا خاصہ ہی یہ تھا کہ وہ ایک بلند آہنگ لہجہ اختیار کرنا چاہتے تھے جس کی تعمیر میں ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کا ہاتھ ہو جو تمام دنیاوی مسائل پر محیط ہوں ، لیکن کیفیت ہو ۔ ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کی مثال روشنی کی Visionary جن کا جزواعظم عام انسانوں کی دنیا نہ ہو بلکہ ایک فکری اور کشفی ان شعاعوں کی ہے جو کسی مشین سے بر آمد ہوتی ہیں ۔ وہ گرد و پیش کو تو منور کر دیتی ہیں لیکن خود مشین کو گرد و پیش سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ۔ اس مزاج کا شاعر داخل سے خارج میں نفوذ کا Liver ہے لیکن خود اس کا وجود برقرار رہتا ہے ۔

 وہ داخل کو خارج میں ضم کرنے کے بجاۓ خارج سے الگ ہٹ کر اپنے وجود کو استعمال کر تا ہے اور اس کے ذریعے سے خارج کی حقیقت کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے ۔ یہ شخصیت کی ایسی انوکھی مثال ہے جس کی نظیر اردو شاعری تو کیا دنیا کی شاعری میں بھی کم ملتی ہے ۔ یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب باتوں کی بنیادی اصل یہ ہے کہ چونکہ غالب نے بیدل کا مطالعہ بہت کم عمری میں کیا تھا اور ان کی زندگی کلام بیدل ہی کی صحبت میں گزرے تھے ، اس لیے کیا تعجب ہے اگر انھوں نے بیدل کا اثر Formative Years کے نشو و نمائی سال قبول کیا ۔ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ غالب نے سراسر بیدل کا اثر قبول کیا ۔ لیکن دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مہر حقیقی شاعر اپنے اوائلی دور کے غلط یا نامتناسب اثرات سے بہت جلد آزاد ہوتا ہے ۔

  ملٹن کی نظم معرا کا شدید اثر قبول کیا تھا ، لیکن اس نے اپنی اس لیے نامکمل چھوڑ دی کہ وہ اس کے خیال میں بہت زیادہ ملٹن زدہ تھی ۔ اقبال نے داغ کا اثر قبول کیا لیکن چند Hyperion طویل نظم ہی دنوں میں وہ ان سے اس طرح الگ ہو گئے کہ داغ کے زیر اثر کہی ہوئی غزلیں اب اقبال کی غزلیں معلوم ہی نہیں ہو تیں ۔ بودلیئر ، گوئٹے کی رومانیت سے متاثر ہوا اڈگر کے کلام سے اس کا تعارف خاصی شعوری عمر میں ہوا ۔ لیکن اڈگر کا کلام پڑھتے ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ اب تک اندھیرے میں تھا ۔ خود ہمارے عہد میں میرا جی نے ، بر خلاف میر سے فیض حاصل کیا ( ا نکی غزلیں اس کی بین مثال ہیں ، لیکن انھوں نے اپنے اصلی اظہارات کو میر کی ہوا بھی نہ لگنے دی ، صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ چونکہ غالب نے نوعمری میں بیدل کو بہت پڑھا تھا اس لیے وہ ان کے دل دادہ ہو گئے ۔

 ہم سب نے ساحر لدھیانوی کو نو عمری میں بہت پڑھاتھا ، لیکن اب شاید ہی ان کا کوئی دل دادہ ہو ۔۔ محمد حسین آزاد کی تشخیص پر اتنا اضافہ کرنے کے بعد کہنے کی ایک دو باتیں اور ہیں تا کہ غالب کے شعری مزاج کو پہچاننے میں آسانی ہو ۔ سب سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ، یعنی غالب پر بیدل کا اثر ۔ خامہ بیدل کو شعری سفر میں اپنا عصافرض کرنے کے باوجود غالب بیدل پر تکیہ نہیں کیے ہوئے تھے ۔

اسد ہر جانسن نے طرح باغ تاز ہ ڈالی ہے مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب عصاۓ خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا ان اشعار اور اپنے اعترافات کے باوجود غالب کو سمجھنے کے لیے صرف بیدل کا حوالہ کافی نہیں ۔ اول تو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، غالب پروپیگنڈا کے ماہر تھے ۔ انھوں نے لوگوں کو بر گشتہ دیکھ کر کہہ دیا کہ بھائی ہم تو بیدل کے پیروکار تھے ، اب جب عقل آئی ہے تو اس سے منحرف ہوئے ہیں ۔ 

جب یہ بات ثابت ہے کہ غالب بیدل سے منحرف نہیں ہوئے تو یہ بات بھی ماننا ضروری نہیں کہ وہ بیدل کےغلام تھے ۔ بیدل کی سرشت میں ایک صوفیانہ پراسراری تھی جس سے غالب بالکل خالی نظر آتے ہیں ۔ بیدل صرف شاعر نہ تھے ، وہ اس سے بھی آگے کی چیز تھی ۔ 1 Ontology طرح کی مابعد الطبیعیات اگر موجود نہیں تو ماہر ضرور تھے ۔ یہ ما بعد الطبیعیات علم وجود غالب پر عقلیت اور ہوش مندی عادی تھی ۔بیدل اس سے تقریبا بالکل معرا تھے ، لہذا کلام غالب کے لیے صرف کلام بیدل استعارہ نہیں غالب نے بیدل سے بہت کچھ سیکھا تھا ، لیکن اپنے مزاج میں عملی فکر کے غالب عنصر کی وجہ سے انھوں نے جو دنیا خلق کی وہ ہمارے لیے ہے ۔

 غالب نے بیدل سے شعر کا فن ضرور سیکھا لیکن انھوں نے بیدل کا اثر اس لیے قبول کیا کہ بیدل Relevant بیدل سے زیادہ صائب اور عربی سے زیادہ پیچیدہ خیال تھے ۔ اگر بیدل نہ ہوتے تو غالب عرفی اور صائب کو اپنا استاد مانتے ۔ شعر میں لفظ کو بر تنے کا اسلوب بیدل سے سیکھ کر غالب نے اس میں اپنی ہوش مندی داخل کی ۔ جن چیزوں کو وہ خیالی مضامین کہبہ کر ٹال گئے ہیں ، دراصل وہ اسی ہوش مندی اور عقلیت کا اظہار ہے جو بیدل کے یہاں نہیں ملتی ۔ بیدل کے بلند اور دور رس طرز اظہار کو اپنانے کی ایک اور وجہ ہو سکتی ہے ، غالب اردو کے ان چند بڑے شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جاگیر دارانہ ماحول میں آنکھ کھولی ۔ انھیں اپنے حسب و نسب پر بھی فخر بہت تھا ۔ ذوق کے ہاتھ میں استرا تھا یا زیادہ سے زیادہ تلوار ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں