مومن میں رئیسانہ آن بان تھی لیکن ان کا سلسلہ نسب غالب کی طرح ممتاز و مفتخر نہ تھا ۔ اقتدار و اختیار کی جس فضا میں غالب نے پرورش پائی اور جس خاندان سے وہ تعلق رکھتے تھے ، اس میں شاعر کا وجود تقریبا قول محال تھا ۔ لیکن ایسی فضا میں آنکھ کھولنے والا شاعر دور میٹھا غبار میں اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا کی طرح کا شعر نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اس حقیقت پر کم نقادوں کی نظر گئی ہے کہ غالب کا گھریلو ماحول اس بات کا طالب تھا ( جس طرح جوش کا گھر یلو ماحول بھی اس بات کا متقاضی تھا کہ اس میں پروان چڑھنے والا شاعر قلند راشہ آزادہ روی کے بجائے شاہانہ آزادہ روی اور بلند کوشی کا حامل ہو ۔ نظیر اکبر آبادی اگر جوش کے گھرانے میں جنم لیتے تو شاید وہ بھی کڑ کتے گرجتے ہوئے شعر کہتے ۔
غالب کی دانش ورانہ واقعیت جس میں حدود و قیود کو توڑ نکلنے کے رومانی ادا بھی ملتی ہے ، ایسے ماحول کی آئینہ دار ہے جو ذہنی اور عقلی برتری کا پروردہ تھا ۔ غالب کے یہاں جس ہوش مندی کی کارفرمائی ملتی ہے اس کے لیے دانش ورانہ ، مہم اور پیچید و اسلوب کے سوا کوئی اور اسلوب مناسب ہی نہ تھا ۔ اشیاء کو تو یہ نہ سمجھنا اور انھیں اس طرح پیش کرنا تا کہ ان کی تمام سطحیں بہ یک وقت دکھائی دے سکیں ، یہ جنون کے انداز نہیں ہیں ۔ جنون ( مثلا میر کا جنون ) اشیاء کی وحدت کو پہچانتا ہے ، پیچیدہ حقیقتوں کو آئینہ کر کے پیش کرتا ہے ۔ عقل اشیاء کی نیرنگی کو پہچانتی ہے اور سہل حقیقتوں میں بھی دو جہتیں ڈھونڈتی ہے جو دوسروں کی نظر سے پوشیدہ تھیں ۔ عقل کا اسلوب سادہ نہیں ہو سکتا ۔
شاعری ، اور خاص کر اردو شاعری میں جنون کو بڑا اہم مرتبہ حاصل رہا ہے ۔ ارسطو نے تو شاعروں کو مجنون قرار ہی دیا تھا ، شیکسپیئر نے بھی عاشق مجنون اور شاعر کو ایک ہی صف میں رکھا تھا ۔ تمام بڑے شاعر ، اور خاص کر تمام بڑے رومانی شاعر کسی نہ کسی حد تک عقل کے اس غیر توازن کے آئینہ دار ہیں جو ابتدائی شکل میں عقلی طر ز افہام کی نفی کرتا اور تفصیلی یا وحدانی طرز افہام پر اصرار کرتا ہے ، نیز آخری شکل میں عقلی بیوہار سے مکمل انکار کر کے باقاعدہ جنون میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے ۔
جنون اور عقل دراصل اشیاء کے افہام کے دو طریقے ہیں اور شاعری اور مابعد الطبیعیات میں جنون کو عقل پر فوقیت حاصل ہے ، جیسا کہ میں اور کہہ چکا ہوں ۔ تخیل اور وجدان کی قوت پر اس اصرار کی وجہ سے جو غیر توازن پیدا ہوتا ہے وہ اکثر شعراء کی ذاتی زندگی میں نظر آتا ہے اور اس کا اظہار لرزہ خیز وخوف آگہی بھی ہو سکتا ہے ۔ بودلیئر نے اپنے روز نامچے میں ان کیفیات کا ذکر ایک انوکھی شدت اور دل ہلا دینے والی بے چینی کے ساتھ کیا ہے ۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے ، میں نے اپنے ہسٹریا کو رونگٹے کھڑے کر دینے والے خوف اور اہتزاز کے ساتھ پالا ہے ۔ اب مجھے مسلسل دوران سر کی شکایت رہتی ہے ۔ آج ۲۳ جنوری ۱۸۲۴ ء کو مجھے ایک انوکھی طرح کا احساس ہوا ۔ میں نے جنون کے بال وپر کو اپنے سر پر سے گزرتے ہوئے محسوس کیا ۔ ” آغاز جنون سے پہلے کی ایک نظم میں وہ کہتا ہے ، ہم اس وقت صحت مند ہوتے ہیں جب ہم زہر پیتے ہیں ۔ یہ آگ ہمارے دماغ کے خلیوں کو اس طرح جلا ڈالتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں اس زہر میں غرق ہو جائیں ۔
جنت ہو یا دوزخ ؟ کسے اس کی فکر ہے ؟ لا معلوم سے گزر کے ہم نئے کو پالیں گے بلاواسطہ علم پر اس شدت کا اصرار غالب کے یہاں مفقود ہے ۔ بال عتقا اور سایہ ہما کا ذکر بار بار کرنے کے باوجود وہ شاید ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ کیٹس کو اپنے آخری دنوں میں اندھیرے سے بہت وحشت ہونے لگی تھی ، اس لیے اس کا تیمار دار دوست شمعوں کو دھاگے سے اس طرح باندھ کر رکھ دیتا تھا کہ ایک بعد دوسری خود به خود جل اٹھے ۔
ایک رات جب کیٹس کی آنکھ اچانک کھل گئی اور اس نے خود بہ خود روشن ہوتی ہوئی شمع کو دیکھا تو ایک دم پکار اٹھا ، جان ! جان ! دیکھو پر یاں میری روح سلب کرنے کو آئی ہیں ۔ ” غالب اگر یہ منظر دیکھتے تو موجہ گل کے چراغاں کا ذکر کرتے ۔ موت جس کا تذکرہ میر نے اس ذوق و شوق سے کیا ہے ۔ لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جاتا آب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا کچھ نہ دیکھا پھر بہ جز یک شعلہ پر پیچ و تاب شمع تک ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا مت کر عجب جو میر ترے غم میں مر گیا جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر نر بس ان نے رو رود یا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے اس کی ایفائے عہد تک نہ جئے عمر نے ہم سے بے وفائی کی
موت غالب کے لیے ذہنی پہلے پن ، تازہ گفتاری اور عقلی شکست وریخت کے موقع فراہم کرتی ہے ۔ مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے بہار حیرت نظار و سخت جانی ہے حنائ پاۓ اجل خون کشیگاں تجھ سے جذ بہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا زمیں کو صفحہ گلشن بنا یا خوں چکانی نے چون بالید نی با از رم نخچیر ہے پیدا بود لیٹر کی ڈائری کے تقریبا چھ مہینے پہلے لینی ۲۳ مئی ۱۸۲۱ ء کو غالب نے لکھا تھا ، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی ، کس برتے پر تا پانی ۔ ہاۓ دلی ! بھاڑ میں جاۓ دلی ! ” غالب کا جنون اس سے آگے کبھی نہ بڑھا ۔
میر کی طرح انھیں بھی اوراق مصور کے پارہ پارہ ہونے کا غم تھا لیکن انھوں نے میر کی طرح کسی چاند میں کسی کی شکل نہ دیکھی تھی ۔ دلی کا مرثیہ جو انھوں نے اس خط میں لکھا تھا ، دوسروں کو رلادیتا کے ساتھ Terror اور Delight ہے ۔ یہ وہ جنون ہے جو کثرت غم سے پیدا ہوا ہے ، وہ جنون نہیں جو بودلیئر نے عقل کی نفی کر کے چنانچہ غالب کا کلام ایک ایسے ہوش مند اور تعقل کوش انسان کا کلام ہے جو کائنات کے مظاہر میں خود کو گم نہیں کر تا۔
ان کی تمام رومانیت بغاوت کی رومانیت ہے ، لیکن رومانی ہونے کے باوجود وہ دل کو رو کے رہتے ہیں ، دماغ کو آگے لاتے ہیں ، اس لیے ان کا کلام مشکل ہے ۔ یہ اشکال پیچیدہ عبارت آرائی کا مرہون منت نہیں ہے ، بلکہ ایک فکری سلسلے کی آخری کڑی ہے ، جس میں وجدان ایک ایسی عقل کا تابع ہے جو ہمہ جہت ہے ۔ بر روۓ شش جہت در آئینہ باز ہے یاں امتیاز نا قص و کامل نہیں رہا وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا غالب نے معشوق کو مشکل پسند کہاہے ، لہذادیکھنا یہ ہے کہ مشکل پسندی کی تعریف انھوں نے کیا کی ہے ۔
غالب مشکل پسند کیوں تھے اور یہ کہنے کے بعد کہ ان کے اشعار کی اشکال در اصل صد جہت ابہام کا مرہون منت ہے ، اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے شعر کی وہ داخلی مشینیات کیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ صد جہت ابہام بروۓ کار آتا ہے ۔ شمار سجه مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف برون صد دل پسند آیا معشوق کو بہ یک کف برون صد دل کی اداخوش آتی ہے ۔ اپنی اس ادا کو ظاہر کرنے کے لیے وہ مجرد الفاظ سے کام نہیں لیتا ، بلکہ ہاتھ میں عقیق سرخ کی تشویچ لے لیتا ہے ۔ گویا وہ اپنی سرشت کا استعاراتی اظہار کرتا ہے ۔
یہ کہنے کے بجاۓ کہ میں مشکل پسند بھی ہوں اور ایک ہاتھ سے سیکڑوں دل اڑالے جانا مجھے اچھا لگتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں میں تشویچ لے کر بہ یک وقت دو حقائق کا اظہار کرتا ہے ، اور ایسا اظہار جو بلاواسطہ الفاظ کا مرہون منت نہیں ہے ۔ اس طرح استعاراتی انداز بیان مشکل پسندی کا معیار ٹھہرا ۔ استعاراتی انداز بیان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ استعارہ اس حقیقت سے بڑا ہوتا ہے جس کے لیے وہ لایا گیا ہوتا ہے ، چنانچہ جس حقیقت کی نمائندگی سے تشریح بڑی ہو جاتی ہے ، یا اس میں کسی ایسی جہت کا اضافہ Dimension کرنے کے لیے استعارہ لا یا جاتا ہے ، وہ حقیقت اپنے عمومی ہو جاتا ہے جو اس میں پہلے نہیں تھی ۔
دوسرا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک استعارہ بہ یک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے ۔ اس طرح شعر کی روایتی خوبی ، یعنی ایجاز تو حاصل ہو ہی جاتی ہے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ اکثر یہ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ دو متضاد حقائق کو ایک ہی ساتھ ظاہر کر دیا جائے ۔ اس سے بڑھ کر منزل یہ ہوتی ہے کہ دو متضاد حقائق کو اس طرح قلمبند کیا جاۓ کہ وہ دراصل ایک ہی نظر آئیں ۔ بودلیئر نے رومانیت کی تعریف یوں کی تھی کہ یہ محسوس کرنے کا ایک ڈھنگ ہے ۔
اس پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ انسان کا ذہن اکثر مختلف کیفیات یا مشاہدات کو ایک ساتھ اپنے دائرے میں لے لیتا ہے ، اس لیے محسوس کرنے کے اس نئے ڈھنگ کو ظاہر کرنے کے لیے استعارے کی زبان استعمال کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے ابھی متضاد حقائق کو ایک کر کے دکھانے کی بات کی ہے ۔ ہیئت اور موضوع بھی متضاد حقائق ہیں اور استعارہ ان کو بھی ایک دوسرے میں ضم کر دیتا ہے ۔ شلیگل نے ڈیڑھ سو برس پہلے کہا تھا کہ جدید ادب ” بیت اور موضوع کے ، بہ حیثیت آپس میں اشتراک کی کوشش ہے ، جس چیز کا استعارہ کیا جاۓ اسے موضوع اور استعارے کو ہیئت فرض کیا جائے تو Intimate Peneteration استعارے کی کارفرمائی کا عجیب عالم نظر آتا ہے ۔ موجودہ شعر میں معشوق نے اپنی صد دل ستانی کا استعارہ از راہ مشکل پسندی تنسیخ کو ہاتھ میں لینے سے کیا ہے ۔
اس طرح تشیع کے سرخ دانے دل کا مقام اختیار کر لیتے ہیں ، جس طرح تسبیح کے دانے معشوق کی انگلیوں کے لمس سے گرمی اور حرکت پاتے ہیں ، اسی طرح عاشقوں کے دلوں کو محبت کی انگشت نگاہ سے گرمی اور حرکت نصیب ہوتی ہے ۔ جس طرح تسبیح کا مردانہ انگلیوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک کا سفر کر تا ہے لیکن جہاں کا تہاں رہتا ہے ، اسی طرح عاشقوں کے دل اپنی تمام وحشت خیزیوں ، امید و نیم ، قرب و بعد کے زیر و بم کے باوجود وہیں کے وہیں رہتے ہیں ۔
محبوب کی حنا آلودہ ، سفید اور مخروطی انگلیاں سوچ کے سرخ دانوں کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہیں جو صبح اور شفق کا ہوتا ہے ۔ شفق کے خو نہیں ہونے کے باوجود صبح کی سفیدی کم نہیں ہوتی ۔ اس طرح تسبیح کا ہاتھ میں لینا ، جو استعارہ ہے ، اور دل بری جو شے مشہود ہے ، ایک ہی ہو جاتے ہیں ۔ لہذا غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعارہ ہے ، لیکن اس استعارے میں اس مخصوص ہوش مندی کی بھی کار فرمائی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اور جو میر کے یہاں مفقود نظر آتی ہے ۔ اس ہوش مندی یعنی دانش وارانہ حاکمیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ غالب کا استعارہ ہیت اور موضوع کے اس امتزاج کو حاصل کر لیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جا سکتا ، ورنہ استعارے کا روایتی استعمال تو استعارے کو لباس کی طرح برتا ہے جس کو شعر سے الگ بھی کر سکتے ہیں ۔
بہت ممکن ہے استعارہ الگ کرنے سے شعر کے زور یا حسن میں کمی آجائے ، لیکن بنیادی مفہوم میں کمی نہیں آسکتی ۔ غالب کے یہاں استعارہ چونکہ الگ نہیں ہو سکتا ، اس لیے الگ کرنے کی کو شش شعر کا خون کرنے میں کامیاب ہو جاۓ تو ہو جاۓ ، لیکن اور کچھ نہیں ہاتھ آسکتا ۔ یہی غالب کے شعر کا اشکال ہے ۔ ہم استعارہ الگ کرنے کی کو شش کرتے ہیں اور شعر کو تلف کر دیتے ہیں ۔ اگر استعارے کو الگ کر کے صرف یوں کہا جاۓ کہ معشوق مشکل پسند ہے اور اسے بہ یک کف صد دل بردن کی ادا پسند ہے تو وہ تمام معنویتیں جو اس عمل میں شمار سجہ نے پیدا کی ہیں ، غائب ہو جائیں گی ۔
استعارے کے ذریعے موضوع اور ہیئت کا امتزاج ان شاعروں نے بھی حاصل کیا ہے جو جنون کے شاعر ہیں ، یعنی جن کے یہاں تحصیلی طر ز افہام وآگہی کو اس درجہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دانش مندانہ تفکر کی نفی کرتے ہیں ۔ میر اور فیض کی مثالیں سامنے کی ہیں ۔ لیکن انوکھی بات یہ ہے کہ اس امتزاج کے باوجودان کے یہاں استعارے کا وہ فائدہ کم کم نظر آتا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں توجہ دلائی تھی ۔ یعنی ان کا استعار و حقیقت کو اس در جہ بڑا نہیں کر د کھاتا کہ اس میں حقائق کی کئی ایسی جہتیں نظر آنے لگیں جو پہلے ناپید تھیں ۔
غالب کے ابہام کا راز اسی ایک نکتے میں ہے اور یہ کیفیت ان کے کلام میں الفاظ کے ماورائی مفاہیم سے اس غیر معمولی اشغال کے ذریعے پیدا ہوتی ہے جو دوسرے شاعروں کے یہاں نہیں ملتا ۔ ایک شعر جو میں نے پہلے غالب کے عقلی اشکال کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے ، ۔ یہ فرضی حقائق عام ہیں اور وہ حقائق بھی جن کا یہ استعارہ ہیں ۔ عاشق محبوب سے محبت کرتا ہے ، یہ بنیادی اور اصلی حقیقت ہے ۔
اس کا استعارہ یہ ہے کہ عاشق محبوب پر جان دینے کو تیار ہے یا اس پر محبوب کے حسن کا اس قدر شدید اثر ہوتا ہے کہ اسے موت سے مشابہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس استعارے کو پلٹ دیجئے تو ظاہر ہوتا ہے کہ معشوق عاشق کی جان لیتا ہے ۔ اس استعارے کو اور پھیلا ہے تو ظاہر ہو تا ہے کہ معشوق کی بے رخی عاشق کو شاق گزرتی ہے اور اس کے لیے موت کے برابر ہے ۔ شاعری میں یہ استعارے حقائق کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔
اب ان حقائق کا استعارہ یہ ہے کہ معشوق ، عاشق کی موت کے لیے تلوار یا اس طرح کے دوسرے ساز و سامان رکھتا ہے اور عاشق چونکہ معشوق پر مرتا ہے اس لیے وہ اس کی تلوار سے قتل ہونے کو تیار ہے ۔ قتل ہونے پر آمادگی اس شوق کا اظہار ہے جو معشوق کے لیے عاشق کے دل میں ہے اور معشوق بھی چونکہ بے رخی کا شیو ہ رکھتا ہے ، اس لیے اسے قتل کرنے میں کوئی عار نہیں ۔ استعاره در حقیقت بمنزلہ حقیقت ہے ، اس درجے پر غالب کا شعر ظہور میں آتا ہے ۔ شدت شوق وجذبہ کے عالم میں تنفس تیز ہو جاتا ہے ۔
یہ کیفیت جنسی ہیجان کی حالت میں خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے ۔ تلوار جو ہوا میں لپ لپاتی ہوئی گردش کر رہی ہے اور عاشق کی گردن پر گرنے والی ہے ، ہیجان تنفس کا منظر پیش کرتی ہے ، گو یا تلوار عاشق کی گردن اتار دینے کو بے چین ہے ۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جذ بہ بے اختیار شوق کس کا ہے ؟ یہ جذ بہ تلوار کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کو بے چین ہے ۔ یہ عاشق کا بھی ہو سکتا ہے جو مرنے کو بے چین ہے اور اس کی بے چینی نے تلوار کو بھی متاثر کر دیا ہے ۔ یہ جذ بہ معشوق کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کے لمحہ میں اس قدر شد ید جذ باتی ہیجان کا شکار ہے کہ اس کا اثر تلوار پر بھی ظاہر ہو رہاہے ۔ گو حقیقت صرف اس قدر ہے کہ عاشق قتل ہونے کو تیار ہے ، لیکن استعارے نے اسے اتنا بڑا کردیا کہ اب اس میں ایسی بہت سی کیفیت میں موجود نظر آنے لگیں جو فی الواقع اس میں نہیں تھیں ۔
۔ جذ بہ بے اختیار شوق ” کی ماورائیت یہ ہے اگرچہ ” شوق کا لفظ عاشق کے دل کا حال بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، لیکن اس جگہ اسے یوں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اگر اس معنی کی بالکل نفی نہیں کرتا تو کم سے کم دوسرے معنی کو آنے سے روکتا بھی نہیں ۔ مطلس کی بے رابطی اگر غیر معمولی جوش و شوق کی طرف اشارہ کرتی ہے تو اس کے ساتھ جنسی پہچان کا پہلو بھی در آتا ہے جو ” شمشیر ” کے علامتی لفظ سے استحکام پاتا ہے ۔
شمشیر ” کا ماورائی مفہوم شدید جنسیت کا حامل ہے ۔ اس طرح ” شمشیر ” اور ” دم شمشیر ” ایک دوسرے کے جنسی معنی کو تحکم کر رہے ہیں ۔ جنون کے خلق کردہ اشعار ان پیچیدگیوں کے اہل نہیں ہو سکتے ۔ ان کی مثالیں دیکھنے کے لیے تو بس شیکسپیئر ہی کے پاس جانا ہو گا ۔ استعارے کو عقل سے مدغم کرنے کا یہ تیور غالب کی مشکل گوئی کی اساس ہے ۔ اس کے مطالعے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اسے قصیدے اور مریے کے تکنیکی مشکل پین سے الگ چیز سمجھا جاۓ ۔ غالب کا اشکال بالذات مقصود نہیں تھا بلکہ اس کا مقصود مشاہدات کی مختلف سطحوں کو یک جا کر نا تھا ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مشکل شعر خراب ہو تا ہے اور آسان شعر خراب تر ۔ آسان ( بینی مجسم کی ضد ) شعر بھی اچھا اور بڑاشعر ہو سکتا ہے ۔